حیدرآباد: آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے صدر ملکارجن کھڑگے نے جمعہ کو تلنگانہ میں کانگریس پارٹی کی تنظیم کو مستحکم کرنے اور ریاستی حکومت کی اہم فلاحی اسکیموں کے نفاذ کا تفصیلی جائزہ لیا۔ کھڑگے نے حیدرآباد میں منعقدہ سیاسی امور کی کمیٹی، سیاسی مشاورتی کمیٹی اور ریاستی کانگریس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ ان کے ہمراہ کانگریس کے جنرل سیکریٹری (تنظیم) کے سی وینوگوپال اور ریاستی انچارج میناکشی نٹراجن بھی موجود تھیں۔وینوگوپال نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ ان کی گفتگو کا محور تلنگانہ میں پارٹی کو نچلی سطح تک مستحکم کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلاک، منڈل اور ڈویژن سطح پر بیشتر تقرریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ ان کے مطابق 30 جولائی تک منڈل سطح کی تنظیم سازی مکمل کر لی جائے گی، جب کہ گرام پنچایت سطح کی کمیٹیاں 30 اگست تک تشکیل دی جائیں گی، تاکہ زمینی سطح پر ایک مضبوط اور جوابدہ پارٹی ڈھانچہ کھڑا ہو سکے۔وینوگوپال نے کہا کہ اجلاس میں ریاستی کانگریس حکومت کی جانب سے نافذ کی گئی مختلف فلاحی اسکیموں کا بھی جائزہ لیا گیا، جن میں ذات پر مبنی مردم شماری بھی شامل ہے، جسے انہوں نے مساوات اور انصاف کی سمت ایک تاریخی قدم قرار دیا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’آئین بچاؤ مہم‘ ریاست کے بیشتر اضلاع اور اسمبلی حلقوں میں کامیابی کے ساتھ مکمل کی جا چکی ہے، اور باقی علاقوں تک اسے پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔اجلاس میں ریاست کے وزیراعلیٰ اے ریونت ریڈی، نائب وزیراعلیٰ مالو بھٹی وکرامارک، پردیش کانگریس کے صدر مہیندر کمار گوڑ، ریاستی وزرا، ارکان پارلیمان، ارکان اسمبلی اور دیگر اعلیٰ قائدین نے شرکت کی۔ریاست کے وزیراعلیٰ ریونت ریڈی نے اپنے خطاب میں اعتماد ظاہر کیا کہ کانگریس آئندہ دس برس تک تلنگانہ میں اقتدار پر برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ آج ملک کی دیگر ریاستوں کے لیے ایک مثالی ماڈل بن چکا ہے۔ ان کے مطابق ریاستی حکومت نے تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ریونت ریڈی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ان کے پردیش صدر رہتے ہوئے 45 لاکھ افراد کانگریس کے سرگرم رکن بنے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یوتھ کانگریس، این ایس یو آئی اور ضلعی سطح کے کئی رہنماؤں کو حکومت میں اہم عہدے دیے گئے ہیں، تاکہ پارٹی اور حکومت کے درمیان بہتر تال میل قائم ہو سکے۔وزیراعلیٰ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ریاستی حکومت نے مرکزی حکومت پر دباؤ ڈال کر ذات پر مبنی مردم شماری کو عام مردم شماری کا حصہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جو پارٹی کی پالیسیوں کی کامیابی کی علامت ہے۔