نقدی برآمدگی معاملے میں بُری طرح پھنسے جسٹس یشونت ورما پر پارلیمانی پینل نے بھی سوال اٹھایا ہے اور حکومت سے پوچھا ہے کہ آخر ان کے خلاف اب تک کوئی ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوئی۔ منگل کو پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و امور انصاف کی میٹنگ میں اراکین پارلیمنٹ نے عدلیہ میں بدعنوانی کے طرز عمل کو لے کر فکرمندی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جج کے یہاں بڑے پیمانے پر نقد (کیش) کا برآمد ہونا تشویش کی بات ہے۔ اس کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ نے ججوں کے سیاسی تقاریب میں شریک ہونے اور ملکیت کا اعلان کرنے میں تاخیر کو لے کر بھی سوال اٹھائے۔اراکین پارلیمنٹ نے سیدھے طور پر سوال کیا کہ دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما کے گھر پر جب بڑے پیمانے پر نقدی کی برآمدگی ہوئی تو اس معاملے میں ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوئی ہے۔ فی الحال جسٹس ورما الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج ہیں اور اس تنازعہ کے بعد ان کا ٹرانسفر ہو گیا تھا۔ بنگال کے ایک رکن پارلیمنٹ نے براہ راست سوال کیا کہ جب بے ضابطگی کے الزامات میں 25 ہزار سے زیادہ ٹیچروں کو نوکری سے ہٹا دیا گیا تو جج کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ان ٹیچروں کی تو جوائننگ بھی 2016 میں ہوئی تھی۔ ایک دیگر رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ آخر یہ کیسی کارروائی ہوئی کہ سنگین الزامات کے گھیرے میں آئے جج کو صرف ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں منتقل کر دیا گیا۔کچھ اراکین نے ججوں کے لیے بنائے گئے 16 پوائنٹس کے کوڈ آف کنڈکٹ پر عمل نہیں ہونے پر بھی سوال اٹھایا۔ یہ کوڈ آف کنڈکٹ سپریم کورٹ نے ہی 1997 میں نافذ کیا تھا۔ اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ ججوں کے لیے یہ کوڈ آف کنڈکٹ صرف کاغذوں تک ہی محدود ہے۔ اس کے لیے 2023 میں سفارش کی گئی تھی کہ ججوں کو اپنی جائیداد کا اعلان کرنا چاہیے، لیکن اس پر عمل نامکمل ہے۔میٹنگ کے دوران کہا گیا کہ کئی جج تو ابھی تک جائیداد کا اعلان کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ججوں کے سیاسی پارٹیوں یا ان سے جڑی تنظیموں کے انعقاد میں حصہ لینے پر بھی سوال کھڑے کیے گئے۔ اراکین نے کہا کہ فکر کی بات یہ بھی ہے کہ کچھ جج سبکدوش ہونے کے بعد بھی عہدے لے رہے ہیں۔ اس میٹنگ میں اپوزیشن پارٹیوں سے جڑے اراکین پارلیمنٹ نے جسٹس شیکھر یادو کا بھی ذکر کیا۔ وہ وشوہندو پریشد کے ایک پروگرام میں شامل ہوئے تھے اور ان کی غلط بیانی سے ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔