’میک اِن انڈیا‘ سے نہ روزگار ملا، نہ فیکٹریاں لگیں، صرف چین کی کمائی بڑھی، راہل گاندھی کا حملہ

Wait 5 sec.

نئی دہلی: لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے فلیگ شپ منصوبے ’میک اِن انڈیا‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مودی جی نے صرف نعرے بازی میں مہارت حاصل کی ہے، حل دینا نہیں سیکھا۔‘‘ انہوں نے الزام عائد کیا کہ 2014 کے بعد سے ہندوستان کی معیشت میں مینوفیکچرنگ کا حصہ گھٹ کر صرف 14 فیصد رہ گیا ہے۔راہل گاندھی نے ایک ویڈیو پوسٹ کے ذریعے دہلی کے نہرو پلیس میں واقع الیکٹرانکس مارکیٹ کے دورے کا احوال بھی شیئر کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے دو موبائل ٹیکنیشنز، شیوم اور سیف، سے ملاقات کی تھی اور ان کے تجربات جانے تھے۔ راہل گاندھی نے کہا، ’’شیوم اور سیف ہنرمند اور باصلاحیت نوجوان ہیں، مگر ملک میں مواقع نہ ہونے کے باعث اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کر پا رہے۔‘‘راہل گاندھی نے کہا، ’’سچائی یہ ہے کہ ہم صرف اسمبل کرتے ہیں، درآمد کرتے ہیں، مگر خود کچھ نہیں بناتے۔ فائدہ چین کو ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے عوام میں میڈ اِن اور اسمبلڈ اِن کے فرق سے لاعلمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم خود مصنوعات تیار نہیں کریں گے، ہم دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہیں گے۔ راہل نے زور دیا، ’’چین نے موبائل اور لیپ ٹاپ انڈسٹری پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور ہم صرف دیکھ رہے ہیں۔‘‘راہل گاندھی نے ’میک اِن انڈیا‘ کی ناکامی کی کئی وجوہات گنوائیں، جن میں سب سے اہم نوجوانوں میں ریکارڈ سطح پر بیروزگاری، گھٹتا ہوا مینوفیکچرنگ سیکٹر اور چین سے بڑھتی ہوئی درآمدات شامل ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چین سے درآمدات دوگنی ہو چکی ہیں، جبکہ خود ہندوستانی صنعت سکڑ رہی ہے۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سرکار کی ’پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو (پی ایل آئی) اسکیم‘، جسے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا، اب خاموشی سے واپس لی جا رہی ہے۔ پی ایل آئی اسکیم کا مقصد ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا تھا مگر راہل گاندھی کے مطابق یہ بھی محض ایک نعرہ بن کر رہ گئی ہے۔راہل گاندھی نے کہا، ’’ہندوستان کو بنیادی سطح پر تبدیلی کی ضرورت ہے، جو لاکھوں چھوٹے پروڈیوسرز کو ایماندار اصلاحات اور مالی تعاون کے ذریعے مضبوط بنائے۔‘‘ آخر میں انہوں نے کہا، "ہمیں دوسروں کی منڈی بننے سے بچنا ہوگا۔ اگر ہم خود نہیں بنائیں گے، تو دوسروں سے خریدنا پڑے گا۔ وقت کم ہے، فیصلے کرنے ہوں گے۔"