سینٹ پیٹرزبرگ: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ایران کو فوجی ساز و سامان کی فراہمی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں، ماسکو کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور روس جوہری توانائی میں ایران کے مفادات کو یقینی بنائے گا۔ولادیمیر پیوٹن نے شمالی روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں نیوز ایجنسی کے سینئر ایڈیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ایران تنازع پر وہ اسرائیل اور ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطےمیں ہیں، انھوں نے کہا اسرائیل کی سلامتی کے ساتھ ایرانی مفادات کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔روئٹرز کے مطابق روسی صدر نے کہا جوہری توانائی میں ایرانی مفادات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، روس نے ایران سے افزودہ یورینیم لینے اور ملک کے سول انرجی پروگرام کو جوہری ایندھن فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ پیوٹن نے کہا ’’پرامن جوہری توانائی کے میدان میں ایران کے مفادات کو یقینی بنانا ممکن ہے، ساتھ ہی اسرائیل کے سلامتی سے متعلق خدشات کو دور کرنا بھی ممکن ہے، ہم نے اپنے ان خیالات کو امریکا، اسرائیل اور ایران کے سامنے بیان کیا ہے۔‘‘ولادیمیر پیوٹن نے بتایا کہ ایران کی زیر زمین یورینیم افزودگی کی سہولیات ابھی تک برقرار ہیں، زیر زمین فیکٹریاں موجود ہیں، ان کو کچھ نہیں ہوا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا روس اسرائیل کے حملوں کے خلاف اپنے دفاع کے لیے ایران کو جدید ہتھیار فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، پیوٹن نے کہا کہ تہران کے ساتھ جنوری میں طے پانے والے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے معاہدے میں فوجی تعاون شامل نہیں تھا، نہ ہی ایران نے فوجی مدد کے لیے کوئی باضابطہ درخواست کی تھی۔ایران اسرائیل جنگ سے متعلق تازہ ترین خبریں یہاں پڑھیںایک سوال کے جواب میں روسی صدر نے کہا کہ اسرائیل نے ماسکو کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ایران میں بوشہر جوہری پاور پلانٹ میں مزید دو ری ایکٹر بنانے میں مدد کرنے والے روسی ماہرین کو فضائی حملوں میں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے قتل سے متعلق سوال پر ولادیمیر پیوٹن نے کہا میں امریکا کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر کے قتل کے امکان پر بات نہیں کرنا چاہتا، یہ پوچھے جانے پر کہ اگر اسرائیل نے امریکا کی مدد سے خامنہ ای کو قتل کیا تو ان کا ردعمل کیا ہوگا، پیوٹن نے کہا ’’میں اس امکان پر بات کرنا بھی نہیں چاہتا۔ میں نہیں چاہتا۔‘‘ جب دباؤ ڈالا گیا تو پیوٹن نے کہا کہ اس نے خامنہ ای کو ممکنہ طور پر قتل کرنے کے بارے میں تبصرے سنے ہیں لیکن وہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔انھوں نے کہا روس نے ایران کو ماضی میں فوجی سازوسامان فراہم کیا، فوجی ساز و سامان کی فراہمی کا موجودہ بحران سے تعلق نہیں، ایران کوفوجی سازوسامان کی فراہمی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں، تاہم ایران کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ معاہدے میں فوجی تعاون شامل نہیں ہے۔