ہندوستانی ایئر لائنز کے حالات دن بہ دن خستہ ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے جموں و کشمیر میں پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہندوستان کی جانب سے کی جانے والی سختی اور ’آپریشن سندور‘ کے بعد پاکستان نے اپنا فضائی حدود ہندوستانی پروازوں کے لیے بند کر دیا، اب ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ایران نے بھی اپنا فضائی حدود بند کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ کے ایران پر حملہ کرنے کے بعد تو صورتحال مزید خراب ہو گئے ہیں۔ ان تمام تر وجوہات کی بنیاد پر ہندوستانی ایئر لائنز کو اپنی بین الاقوامی پروازوں کو چلانے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فضائی راستے کافی طویل ہو گئے، ایندھن کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور ٹکٹوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔انڈین چیمبر آف کامرس کی ایوی ایشن اینڈ ٹورزم ایکسپرٹ کمیٹی کے چیئرمین سبھاش گوئل کا کہنا ہے کہ ’’صرف پاکستان اور ایران کے ہی فضائی حدود بند نہیں ہوئے ہیں، بلکہ کئی دیگر ممالک کے ہوائی راستے بھی ہندوستانی پروازوں کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے دہلی، پنجاب، راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں سے اڑان بھرنے والی بین الاقوامی طیاروں پر کافی اثر پڑ رہا ہے۔ طویل راستوں کی وجہ سے ایئر لائنز کا ایندھن اخراجات بڑھ رہا ہے، اور یہ بڑھی ہوئی قیمت بھی مسافرین سے ہی وصول کی جا رہی ہے۔ ٹکٹوں کی قیمتوں میں 15 سے 20 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔‘‘ سبھاش گوئل نے مزید کہا کہ ’’صرف فضائی راستے بند ہونے کا ہی مسئلہ نہیں ہے، تیل کی درآمد بھی مہنگی ہو رہی ہے، جس کا براہ راست اثر ہوابازی سیکٹر پر پڑ رہا ہے۔‘‘ایوی ایشن ایکسپرٹ اور سیفٹی میٹرس فیڈریشن کے بانی امت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’بین الاقوامی پروازوں کے راستے اب اتنے طویل ہو گئے ہیں کہ ایئر لائنز کو درمیان میں کم از کم ایک اسٹاپ لینا پڑ رہا ہے۔ یعنی جو فلائٹ پہلے نان اسٹاپ ہوا کرتی تھی، اب انہیں راستے میں کہیں نہ کہیں رکنا پڑ رہا ہے۔ اس سے نہ صرف مسافرین کا وقت برباد ہو رہا ہے، بلکہ ایئر لائنز کا خرچ بھی بڑھ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کچھ غیر ملکی ایئر لائنز اب بھی پاکستان کے ایئر اسپیس کا استعمال کر رہی ہیں، لیکن ہندوستانی ایئر لائنز کے لیے یہ راستے مکمل طور سے بند ہیں۔‘‘پہلے ہندوستانی ایئر لائنز پاکستانی فضائی حدود کا استعمال کر کے ایران کے راستے لندن، نیویارک، کناڈا، سان فرانسسکو اور یورپ کے کئی ممالک کے لیے پروازیں بھرتی تھیں۔ لیکن اب حالات مکمل طور سے بدل گئے ہیں، پاکستانی ایئر اسپیس تو بند ہے ہی، ہندوستانی ایئر لائنز افغانستان کے ہوائی راستے کا بھی استعمال نہیں کر رہی ہیں۔ ایران کا ایئر اسپیس بھی اب بند ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ عراق، شام، اسرائیل اور اردن کے فضائی حدود بھی ہندوستانی پروازوں کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ ان تمام تر مشکلات کی وجہ سے ہندوستانی ایئر لائنز کو اب گجرات کے بُھج اور جام نگر کے درمیان بحیرہ عرب کے اوپر سے پرواز بھرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں سے وہ عمان اور یو اے ای کے ایئر اسپیس کا استعمال کر کے خلیج عرب کے اوپر سے یونان، شمالی مقدونیہ جیسے ممالک کے راستے لندن، امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک تک پہنچ رہی ہے۔ اس طویل راستے کی وجہ سے پروازوں کے اوقات میں اضافہ ہوا ہے، ایندھن کی کھپت بڑھ گئی ہے اور ایئر لائنز کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ایوی ایشن کے ماہرین کا خیال ہے کہ فوری طور پر اس مسئلہ کا کوئی حل نکالنا مشکل ہے۔ جب تک پاکستان، ایران اور دیگر ممالک کے فضائی حدود پھر سے ہندوستانی پروازوں کے لیے نہیں کھلتے، تب تک ایئر لائنز کو اسی طرح طویل راستوں سے ہی کام چلانا ہوگا۔ حالانکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کر کے متبادل راستوں اور ایندھن سبسڈی جیسے اقدامات پر غور کیا جانا چاہیے۔ ایوی ایشن ماہر امت سنگھ نے مشورہ دیا کہ ہندوستانی ایئر لائنز کو اپنے آپریشنز کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ مثال کے طور پر وہ زیادہ ایندھن کی بچت والے طیاروں کو استعمال کر سکتی ہیں، یا پھر راستے میں پڑنے والے اسٹاپ کو اس طرح پلان کر سکتی ہیں کہ مسافرین کو کم سے کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن یہ تمام اقدامات وقتی ہیں، اصل حل تبھی نکلے گا جب جیو پولیٹیکل صورتحال بہتر ہوں گے۔اس درمیان ملک میں ہوابازی کے شعبہ کی خستہ حالی پر ہوابازی سیکٹر سے متعلق پارلیمنٹ کی اسٹینڈگ کمیٹی نے ناراضگی ظاہر کی ہے اور مسافروں کے تحفظ سے متعلق تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ پارلیمنٹ کی اسٹینڈگ کمیٹی نے 30 جون کو گنگٹوک میں ایک میٹنگ بلائی ہے، جہاں پورے دن مسافروں کے تحفظ پر بحث کی جائے گی۔ ساتھ ہی شمال مشرق کے فضائی رابطوں، سڑکوں کے حالات اور سیاحت پر بھی گفت و شنید ہوگی۔