لکھنؤ: بجلی کی نجکاری کے خلاف ہزاروں ملازمین سراپا احتجاج، حکومت کو غیر معینہ ہڑتال کا انتباہ

Wait 5 sec.

لکھنؤ میں بجلی کی نجکاری کے خلاف ملازمین کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ اتر پردیش کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے فیصلے کے خلاف ہزاروں بجلی ملازمین نے سڑکوں پر مارچ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ احتجاج کرنے والے ملازمین نے واضح اعلان کیا کہ جس دن نجکاری کا ٹینڈر جاری کیا جائے گا، اسی دن سے وہ غیر معینہ مدت کی ہڑتال اور جیل بھرو تحریک شروع کر دیں گے۔اس تحریک کو اب کسان تنظیموں کی حمایت بھی ملنے لگی ہے۔ کرانتی کاری کسان یونین کے قومی صدر ڈاکٹر درشن پال نے کسانوں اور کھیت مزدوروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بجلی ملازمین کے اس احتجاج میں ان کا ساتھ دیں۔ یونین کے جنرل سکریٹری ششی کانت نے کہا کہ بجلی کی نجکاری کا براہ راست اثر کسانوں کی روزمرہ ضروریات پر پڑے گا، کیونکہ نجی کمپنیاں منافع کو ترجیح دیتی ہیں، عوامی مفاد کو نہیں۔احتجاج صرف اتر پردیش تک محدود نہیں رہا۔ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی آف الیکٹریسٹی ایمپلائز اینڈ انجینئرز نے ملک بھر کے بجلی ملازمین سے اپیل کی ہے کہ وہ ضلعی سطح پر اور بجلی پروجیکٹوں کے مقامات پر احتجاج کریں۔ادھر، ریاستی بجلی صارفین کونسل نے بھی نجکاری کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ کونسل کے صدر اودھیش کمار ورما نے الزام لگایا کہ پاور کارپوریشن نے بجلی ایکٹ 2003 کی دفعہ 131(2) کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے مطابق قانون کے تحت کمپنیوں کی جائیداد اور 25 سال کی آمدنی کی صلاحیت کا تخمینہ لگانا لازمی ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔کونسل کا کہنا ہے کہ اگر ان اثاثوں کا درست تخمینہ لگایا جاتا تو کمپنی کی مالیت بڑھ جاتی، جس سے نجکاری مہنگی پڑتی، اسی لیے جان بوجھ کر اس عمل کو نظر انداز کیا گیا۔ اودھیش ورما نے کہا کہ جب ریگولیٹری کمیشن کے چیئرمین رخصت سے لوٹیں گے تو صارفین کونسل یہ معاملہ کمیشن میں اٹھائے گی۔بجلی ملازمین کا دعویٰ ہے کہ حکومت بجلی ایکٹ 2003 کی دفعات 131، 132، 133 اور 134 کا استعمال کر کے 42 اضلاع کی بجلی نجی شعبے کو سونپنا چاہتی ہے، جب کہ صارفین کونسل کا کہنا ہے کہ ان دفعات کا استعمال پہلے ہی تقسیم کے وقت ہو چکا ہے، اور انہیں دوبارہ لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ صورتحال دن بہ دن سنگین ہوتی جا رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں احتجاج کی شدت اور دائرہ دونوں میں اضافہ ہوگا۔