سپریم کورٹ کے جج جسٹس اُجل بھوئیاں نے قانون بنانے میں ججوں کے کردار کو لے کر اہم بات کہی ہے۔ جسٹس بھوئیاں نے کہا ہے کہ یہ کہنا پوری طرح غلط ہے کہ جج قانون بنانے کے عمل میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے تصور کی کوئی قانونی یا آئینی بنیاد نہیں ہے۔ اس دوران جسٹس بھوئیاں نے سابق مرکزی وزیر آنجہانی ارون جیٹلی کا بھی ذکر کیا۔جسٹس بھوئیاں نے یہ باتیں مہاراشٹر اور گوا بار کاؤنسل کے ذریعہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ابھئے ایس اوکا کے لیے منعقد الوداعی تقریب میں شرکت کے موقع پر کہیں۔ انہوں نے آگے کہا کہ آئین نے سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کی پڑتال کرنے اور آئین کے مطابق نہیں پائے جانے پر ایسے قوانین کو منسوخ کرنے کا بھی حق دیا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ جج قانون بنانے کے عمل میں حصہ نہیں لے سکتے۔جسٹس اُجل بھوئیاں نے کہا، ’’میرے حساب سے، یہ تنقید کہ جج لوگوں کے ذریعے منتخب نہیں کیے جاتے، اس لیے انہیں قانون بنانے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اس کی کوئی قانونی یا آئینی بنیاد نہیں ہے۔ آئین نے سپریم کورٹ کو یہ جانچ کرنے کا حق دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے قانون آئین کے مطابق ہیں یا نہیں اور اگر نہیں ہیں تو عدلیہ عدالتی جائزہ کی طاقت کا استعمال کرکے ایسے قانون کو منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘جسٹس بھوئیاں نے اس دوران سابق مرکزی وزیر ارون جیٹلی کی تنقید کا بھی ذکر کیا۔ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کے رکن عوام کے ذریعہ منتخب کیے جاتے ہیں اور عوام کے تئیں جواب دہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج عوام کے ذریعہ منتخب نہیں ہوتے ہیں اس لیے ججوں کو عوام کے نمائندوں کے ذریعہ بنائے گئے قوانین میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔