لب تیرے گلابوں کی نُزاکت میں سنور جائیںپر ہجر میں یہ زخم کی صورت میں اُبھر جائیںآنکھیں تری جادو ہیں کہ روشن ہیں ستارےپر دیکھ کے ان کو ہی کئی خواب بکھر جائیںزلفوں کی گھٹا چھاؤں گھنی رات کی مانندپر ہجر میں یہ درد کی آندھی میں بِکھر جائیںباتیں تری شیریں ہیں کہ شہداب کی صورتپر ہجر میں یہ زہر کے سانچے میں اُتر جائیںتو چاند سا روشن ہے، ضیا تیری مثالیںپر دوری میں آنکھوں سے کئی اشک گزر جائیں