دہلی اسمبلی میں منگل (25 فروری) کے روز آبکاری پالیسی سے متعلق سی اے جی رپورٹ پیش کی گئی۔ اس سے قبل عآپ کی جانب سے کچھ دیگر معاملوں کو لے کر خوب ہنگامہ ہوا، جس کے تعلق سے بی جے پی کا الزام ہے کہ یہ سی اے جی رپورٹ پیش کرنے میں رخنہ اندازی کی کوشش تھی۔ ہنگامہ کرنے والے 11 عآپ اراکین اسمبلی کو آج دن بھر کے لیے اسمبلی سے معطل بھی کر دیا گیا۔ بعد ازاں آبکاری پالیسی پر سی اے جی کی رپورٹ پیش کی گئی۔VIDEO | AAP MLAs raising slogans during LG VK Saxena's address marshalled out of Delhi Assembly. #DelhiAssemblySession #DelhiNews(Source: Third Party)(Full video available on PTI Videos - https://t.co/n147TvrpG7) pic.twitter.com/9DXH9AruZw— Press Trust of India (@PTI_News) February 25, 2025اس دوران دہلی اسپیکر وجیندر گپتا نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے رپورٹ کو دبا کر رکھا ہوا تھا اور رپورٹ سے متعلق کچھ گمراہیاں پھیلائی گئیں۔ سی اے جی رپورٹ کے مطابق 22-2021 کی آبکاری پالیسی کے سبب دہلی حکومت کو مجموعی طور پر 2 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس کی وجہ کمزور پالیسی فریم ورک سے لے کر نامناسب عمل درآمد سمیت کئی اہم عناصر ہیں۔دہلی اسمبلی میں جو سی اے جی رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس میں لائسنس جاری کرنے کے طریقہ کار میں اصولوں کی خلاف ورزیوں کو بھی نشان زد کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آبکاری پالیسی بنانے کے لیے تبدیلی کا مشورہ دینے سے متعلق تشکیل ماہرین کے ایک پینل کی سفارشات کو اُس وقت کے نائب وزیر اعلیٰ اور آبکاری وزیر منیش سسودیا نے نظر انداز کر دیا تھا۔ اس رپورٹ میں 941.53 کروڑ روپے ریونیو کے نقصان کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’نان کنفرمنگ میونسپل وارڈس‘ میں شراب کی دکانیں کھولنے کے لیے وقت پر اجازت نہیں لی گئی۔ نان-کنفرمنگ علاقے وہ علاقہ ہیں جو شراب کی دکانیں کھولنے کے لیے اراضی استعمال کے پیمانوں کے موافق نہیں ہیں۔#WATCH | Delhi Legislative Assembly Speaker Vijender Gupta says, "It is amazing to know that CAG report has not been tabled in the assembly after 2017-18. In this regard, the then LoP, i.e. me, and five other opposition leaders had requested the President, Speaker of the… pic.twitter.com/gQ93rcyZyk— ANI (@ANI) February 25, 2025وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا کی طرف سے پیش کی گئی سی اے جی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’آبکاری محکمہ کو ان (نان کنفرمنگ) علاقوں سے لائسنس فیس کی شکل میں تقریباً 890.15 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، کیونکہ ان علاقوں کے سرینڈر ہونے اور محکمہ کی طرف سے پھر سے ٹنڈر جاری کرنے میں ناکامی کے سبب ایسا ہوا۔‘‘ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کووڈ وبا سے متعلق بند کے سبب لائسنس یافتہ لووں کو عارضی چھوٹ کے سبب 144 کروڑ روپے ریونیو کا بھی نقصان ہوا۔اس رپورٹ کو پیش کیے جانے کے بعد اسمبلی اسپیکر وجیندر گپتا نے کہا کہ ’’یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ 18-2017 کے بعد سی اے جی رپورٹ اسمبلی میں پیش ہی نہیں کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سابقہ اپوزیشن لیڈر یعنی میں نے اور 5 دیگر اپوزیشن لیڈران نے صدر جمہوریہ، اسمبلی اسپیکر، وزیر اعلیٰ اور چیف سکریٹری سے رپورٹ پیش کرنے کی گزارش کی تھی۔ ریاست کی مالی حالت جاننے کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’بدقسمتی سے سی اے جی رپورٹ پیش نہیں کی گئی اور گزشتہ حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی۔ ہائی کورٹ نے سی اے جی رپورٹ کو لے کر بے حد سنگین تبصرے کیے تھے۔ اس کو پیش کرنے میں لاپروائی کی گئی۔ ایل جی کے پاس وقت رہتے رپورٹ کو نہیں بھیجا گیا۔‘‘