کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی ایم) نے نریندر مودی حکومت کو ’فاشسٹ‘ یا ’نو فاشسٹ‘ قرار دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پارٹی کے اس بدلے ہوئے رخ سے اپوزیشن جماعتوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ سی پی ایم کا یہ بدلا ہوا رخ 24 ویں جنرل کنونشن سے قبل تیار کردہ سیاسی تجویز کے مسودے میں سامنے آیا ہے۔ اس مسودے کو ریاستی اکائیوں کو بھیجا گیا ہے۔’انڈیا ٹوڈے‘ کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کا یہ موقف سابقہ موقف سے الگ مانا جا رہا ہے، جب سی پی ایم اکثر بی جے پی اور آر ایس ایس پر ’ فاشسٹ ایجنڈا‘ نافذ کرنے کا الزام عائد کرتی رہی۔ پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے کئی بار مودی حکومت کا موازنہ ’فاشسٹ حکومت‘ سے کیا تھا۔ حالانکہ سی پی ایم نے اپنے موقف کا بچاؤ کیا ہے، لیکن سی پی آئی نے اسے درست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سی پی آئی کے علاوہ کانگریس نے بھی سی پی ایم کے اس موقف کو ’سیاسی وجود بچانے کی حکمت عملی‘ قرار دیا ہے۔ واضح ہو کہ سی پی ایم 1964 میں سی پی آئی سے الگ ہوئی تھی۔قومی سطح پر تینوں سیاسی جماعتیں (کانگریس، سی پی آئی، سی پی ایم) متحد ہیں، لیکن کیرالہ میں کانگریس اور سی پی ایم آپس میں حریف ہیں۔ کیرالہ میں سی پی ایم اور سی پی آئی لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) کا حصہ ہیں، جب کہ کانگریس اپوزیشن یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) کی قیادت کر رہی ہے۔ سی پی ایم کے اس نئے موقف پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے تشار گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا ہے کہ ’’سی پی ایم کیرالہ نے مودی حکومت کو فاسشٹ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ کیا سی پی ایم اب آر ایس ایس کے لیے ’ریڈ فلیگ‘ کو ’ریڈ کارپیٹ‘ میں بدل رہی ہے؟ کیا لال اب بھگوا ہو رہا ہے؟‘‘سی پی ایم نے اپنے مسودے میں یہ واضح کیا کہ حالانکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت میں ’نو فاشسٹ خصوصیات‘ نظر آتی ہیں، لیکن اسے مکمل طور پر فاشسٹ حکومت کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ سی پی ایم کے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ مودی حکومت ایک فاشسٹ یا نو فاشسٹ حکومت ہے۔ نہ ہی ہم ہندوستانی ریاست کو نو فاشسٹ ریاست تصور کر رہے ہیں۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ بی جے پی جو آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم ہے، اس کی 10 سالہ مسلسل حکمرانی کے بعد جو سیاسی طاقت کی مرکزیت ہوئی ہے، اس سے نو فاشسٹ خصوصیات نکل کر سامنے آئی ہیں۔‘‘ سی پی ایم کی مرکزی کمیٹی کے رکن اے کے بالن نے پارٹی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے کبھی بھی بی جے پی حکومت کو فاشسٹ حکومت نہیں کہا۔ ہم نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ ہندوستان میں فاشزم آ گیا ہے۔ اگر فاشزم آ جاتا تو ملک کا سیاسی ڈھانچہ بدل گیا ہوتا۔‘‘ علاوہ ازیں انہوں نے دیگر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اختلافات کے حوالے سے کہا کہ ’’سی پی آئی اور سی پی ایم (ایم ایم) کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں فاشزم آ چکا ہے، لیکن ہمارے تجزیے کے مطابق یہ کہنا غلط ہوگا۔‘‘ علاوہ ازیں سی پی ایم نے روایتی فاشزم اور نو فاشزم میں فرق بتاتے ہوئے کہا کہ ’’روایتی فاشزم سامراجیت کے دور میں ابھرا تھا، جب کہ نو فاشزم نو لبرل ازم کے بحران کا نتیجہ ہے۔ روایتی فاشزم نے انتخابی نظام کو مسترد کر دیا تھا، جب کہ نو فاشزم جمہوری ڈھانچے کے اندر آمرانہ رجحانات کو جنم دیتا ہے۔‘‘کانگریس نے سی پی ایم کے اس موقف پر سخت تنقید کی ہے۔ اس حوالے سے کیرالہ کانگریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’سی پی ایم کا اصل مطلب کمیونسٹ جنتا پارٹی ہو گیا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ ان کی خفیہ ڈیل اب واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ وہ بی جے پی کی فاشسٹ حکمرانی کو سفید جھنڈا دکھا رہے ہیں۔‘‘ کیرالہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وی ڈی ستیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ سی پی ایم کا یہ نیا دستاویز بی جے پی سے اس کی ’خفیہ ملی بھگت‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’سی پی ایم نے ہمیشہ فاشزم کے ساتھ امن کا معاملہ کیا ہے۔ اب اسے برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے نئے دستاویزات پیش کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت فاشسٹ نہیں ہے۔ یہ مودی اور سنگھ پریوار سے سمجھوتہ کرنے اور ان کے سامنے خود سپردگی کرنے کی سمت میں ایک قدم ہے۔‘‘سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سی پی ایم اپنے موقف کو متوازن رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اس کی انتخابی بنیاد متاثر نہ ہو۔ لیکن اس کی اتحادی سی پی آئی اسے قبول نہیں کر سکتی، کیونکہ اس کا مستقبل سی پی ایم کی پالیسیوں سے منسلک ہے۔ وہیں کانگریس کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے، کیونکہ وہ کیرالہ میں اہم اپوزیشن پارٹی ہے اور 2026 کے اسمبلی انتخاب میں سی پی ایم کو شکست دینے کے لیے اسے ایک بڑے سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کر کے اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔