آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہےمیرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے​آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلافمیرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے​جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میںنشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں​جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانونظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون​تشنگی نفس کے جذبوں کی بجھانے کے لئےنوع انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون​ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھےان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے...​Read more