ٹریڈ یونینوں کا بھارت بند: حکومت کی مزدور و کسان مخالف پالیسیوں کے خلاف 25 کروڑ ملازمین سڑک پر

Wait 5 sec.

ملک بھر میں حکومت کی مزدور مخالف اور کسان مخالف پالیسیوں کے خلاف آج بڑے پیمانے پر ’بھارت بند‘ کا انعقاد کیا گیا ہے، جس کی قیادت ملک کی 10 بڑی ٹریڈ یونینیں کر رہی ہیں۔ اس ہڑتال میں 25 کروڑ سے زائد کارکنان، جن کا تعلق بینکنگ، انشورنس، کوئلہ کانکنی، تعمیرات، ہائی وے، ریلوے اور دیگر شعبوں سے ہے، شریک ہوئے۔یہ بھارت بند دراصل ایک ’ٹریڈ یونین بند‘ ہے، جسے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ہڑتال کا مقصد مزدوروں کے حقوق کو لاحق خطرات، لیبر قوانین میں تبدیلی، سرکاری اداروں کی نجکاری، کنٹریکٹ پر نوکریوں کا فروغ، اور بڑھتی بے روزگاری جیسے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔یونینوں نے الزام لگایا ہے کہ حکومت پچھلے دس برسوں سے سالانہ لیبر کانفرنس بلانے میں ناکام رہی ہے اور مزدور تنظیموں کی طرف سے پیش کردہ 17 نکاتی مطالبات کو بھی مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ ان مطالبات میں کم از کم اجرت کی ضمانت، مستقل روزگار، مہنگائی بھتے میں اضافہ، اور نجکاری پر روک شامل ہیں۔یونینوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے کام کے گھنٹے بڑھا دیے ہیں اور ورکرز کے فلاحی قوانین میں کٹوتی کی ہے، جس سے مزدور طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اسی لیے یہ بند صرف ایک احتجاجی مظاہرہ نہیں بلکہ حکومت کی پالیسوں کے خلاف ایک فیصلہ کن آواز ہے۔اس بند کو کسان تنظیموں، زرعی مزدور یونینوں اور کئی علاقائی سماجی تنظیموں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ خاص طور پر ’سنیوکت کسان مورچہ‘ نے اس ہڑتال کو اپنی حمایت دی ہے، جس سے احتجاج کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ، بینک اور ڈاک خدمات بری طرح متاثر ہوئی ہیں، جبکہ اسکول، کالج اور نجی دفاتر کے کھلے رہنے کی اطلاعات ہیں۔ادھر بہار میں ’انڈیا‘ اتحاد نے ووٹر ویری فیکیشن کے خلاف ’بہار بند‘ کا اعلان کیا ہے، جو کہ ملک گیر ’بھارت بند‘ سے الگ مگر اسی دن کا متوازی احتجاجی عمل ہے۔ اگرچہ دونوں کی نوعیت مختلف ہے، ایک انتخابی عمل پر اعتراض، دوسرا مزدور حقوق کے لیے، تاہم اپوزیشن جماعتیں دونوں محاذوں پر حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں۔ ’بہار بند‘ کے تحت ہونے والے چکہ جام میں راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو اور کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی کی شرکت متوقع ہے۔یہ بات اہم ہے کہ نومبر 2020، مارچ 2022 اور فروری 2024 میں بھی ایسی ملک گیر ہڑتالیں ہو چکی ہیں لیکن آج کی ہڑتال کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ منظم، وسیع اور اثر انگیز تصور کیا جا رہا ہے۔ ٹریڈ یونینوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے سنجیدگی سے مذاکرات نہ کیے تو آنے والے دنوں میں تحریک مزید سخت اور وسیع پیمانے پر کی جائے گی۔