امریکی یونیورسٹی کے 4 طلبہ کے قتل کی اہم کیا وجہ تھی؟ ہولناک انکشافات

Wait 5 sec.

امریکہ کی شمال مشرقی ریاست آئیڈاہو میں 4 یونیورسٹی طلبا کے قتل کے واقعے کو گزرے پونے 3 سال گزر چکے ہیں، اس کیس کا فیصلہ 23 جولائی کو سنایا جائے گا۔چاروں طلبا کو 13 نومبر 2022کو ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ میں چھری کے وار کرکے قتل کیا گیا تھا، قتل ہونے والوں میں 20 سالہ ایتھان چیپن، 21 سالہ کیلی گونکلیوز، 20 سالہ ژاناکرنوڈل اور 21 سالہ میڈیسن موگن شامل ہیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چاروں طلبہ کے قتل میں ملوث برائن کوہبرگر نے 2 جولائی کو عدالت کے روبرو اعتراف جرم تو کرلیا لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا؟ ملزم واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی میں کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی طالب علم تھا۔طلبہ کے اس بہیمانہ قتل کے کیس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مقدمے کے مرکزی ملزم کوہبرگر نے پراسیکیوشن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت اُسے سزائے موت نہیں دی جائے گی بلکہ اُسے چار مرتبہ عمر قید کی سزائیں مسلسل بھگتنا ہوں گی، جس کی وجہ سے مقتولین کے لواحقین بہت افسردہ اور ناراض ہیں کہ قاتل کو موت کی سزا کیوں نہیں دی جارہی یہ سراسر ناانصافی ہے۔قاتل نے یہ جرم کیوں کیا؟رپورٹ کے مطابق سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب بھی یہ واضح نہیں ہے کہ کوہبرگر نے یہ سب کیوں کیا۔ ان چاروں مقتولین سے اس کا کوئی ذاتی تعلق بھی ثابت نہیں ہوا۔ اب چونکہ مقدمہ مکمل طور پر چلا ہی نہیں، اس لیے اس سوال کا جواب شاید کبھی نہ ملے کہ اُس نے ایسا کیوں کیا؟۔دوسری جانب اُس کے قریبی دوست بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اُس نے اتنا ہولناک جرم کیوں کیا، کچھ دوستوں کو لگتا ہے کہ وہ جرم کی نفسیات جاننے کے لیے خود قاتل بنا۔برائن کوہبرگر کے بچپن کے دوست جیک بائیلس نے بتایا کہ اُسے لگتا ہے کہ کوہبرگر کو قاتلوں کے بارے میں حد سے زیادہ تجسس تھا۔بائیلس نے بتایا کہ شاید کوہبرگر نے دیکھا کہ اگر وہ خود کسی کو قتل کرے تو اسے کیسا محسوس ہوگا؟ یعنی اُس نے تجربہ کرنا چاہا کہ قاتل کی نفسیات کیسی ہوتی ہے؟ بائیلس نے کہا کہ کوہبرگر شاید سمجھتا تھا کہ اگر اُسے قاتل کی ذہنیت پر مقالہ لکھنا ہے تو اُس کے لیے قاتل بننا ضروری ہے۔برائن کوہبرگر کو 23 جولائی کو عمر قید کی چار مسلسل سزائیں سنائی جائیں گی، تاہم اس کے لیے پیرول کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ مقتولین کے لواحقین بھی اُس کی سزا سے مطمئن نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ اُسے سزائے موت لازمی ملنی چاہیے تھی۔