’’مودی جی کا بڑبولا وعدہ تھا ’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘، لیکن حقیقت ایک سیاہ حقیقت بیان کرتی ہے۔ یعنی ’کھاؤں گا بھی، اور کھلواؤں گا بھی۔‘‘ یہ تلخ تبصرہ کانگریس نے آج 2 بڑے گھوٹالوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے۔ کانگریس کی سینئر لیڈر ڈاکٹر اونیکا مہروترا نے میڈیا کے سامنے کہا کہ ’’2 بڑے گھوٹالے —ایک نیشنل میڈیکل کمیشن (این ایم سی) میں اور دوسرا فارمیسی کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) میں— جنھیں سی بی آئی نے سامنے لایا ہے، محض معمولی گھوٹالے نہیں ہیں؛ یہ بدنام زمانہ ویاپم گھوٹالے سے بھی بڑے ہیں۔ اس بار معاملہ صرف مدھیہ پردیش تک محدود نہیں ہے۔ اس گھوٹالے کی جڑیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں– راجستھان، ہریانہ، بہار، گجرات، اتر پردیش، اندور، وارنگل اور وشاکھاپٹنم تک۔‘‘I'm sure you must have heard about a very popular statement by our Prime Minister: "Na khilaunga, na khane dunga!"But the reality is "khaunga bhi, khilwaunga bhi..."Two massive scams, one in the NMC and another in the Pharmacy Council of India, have been exposed by the CBI.… pic.twitter.com/2tPY322Afz— Congress (@INCIndia) July 7, 2025کانگریس نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی منصوبہ بند طریقے سے ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ پہلے اس نے ویاپم گھوٹالے کو مدھیہ پردیش میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کی طرح شروع کیا، پھر ملک بھر میں پیپر لیک اور بھرتی گھوٹالوں کے ذریعہ ہمارے نوجوانوں کا مستقبل تاریکی میں ڈال دیا۔ اب انھوں نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے فرضی میڈیکل کالج بنا دیے ہیں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو لوٹا جا سکے۔ ان گھوٹالہ کا طریقہ کچھ اس طرح کا ہے کہ فرضی میڈیکل کالجوں کو منمانا کمپلائنس (تعمیل) دکھا کر این ایم سی کی منظوری دی جاتی ہے، فرضی فیکلٹی، نقلی مریض، کلون کیے ہوئے فنگر پرنٹ اور چھیڑ چھاڑ کیے گئے بایومیٹرک سسٹم کا استعمال کر انسپکشن (معائنہ) پاس کروایا جاتا ہے اور ایپروول (منظوری) حاصل کر لیا جاتا ہے۔ڈاکٹر اونیکا مہروترا نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر جے پی نڈا، جو مرکزی وزیر صحت بھی ہیں، اس مہاگھوٹالے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ملک بھر میں ایک قومی سطح کا میڈیکل گھوٹالہ ہو رہا تھا، لیکن ان کو معلوم بھی نہیں تھا۔ یہ شدید لاپروائی اور منظم لوٹ پاٹ کا واضح معاملہ ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا یہ جانچ کرنے کے لیے کوئی نظام نہیں تھا کہ یہ منظوریاں کس بنیاد پر دی جا رہی تھیں؟According to the CBI FIR filed, a separate case involving the Pharmacy Council of India has come to light. The FIR accuses Dr. Montu Patel, the PCI president, of turning the regulatory body into a private club driven by favouritism, bribery and political manipulation. In… pic.twitter.com/qjPL8stORz— Congress (@INCIndia) July 7, 2025ڈاکٹر اونیکا مہروترا نے کچھ حقائق پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’6 اپریل 2022 کو ڈاکٹر پٹیل نے اپنے کچھ اراکین کو ’کو-آپٹ‘ کیا اور سب کچھ نظر انداز کر کے اس کمیٹی میں ڈالا جس کے ذریعہ سے منظوری ملتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، ان کو پوری طاقت دی، تاکہ وہ ان فارمیسی کالجوں کو منظوری دے سکیں۔ یہ سب اصولوں کو توڑتے ہوئے کیا گیا اور کسی سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’آپ سبھی کو معلوم ہے، جب کالج کا معائنہ ہوتا ہے تو اس میں فزیکل ویریفکیشن ہوتا ہے۔ اس کے تحت بنیادی سہولیات سے لے کر ہر طرح کی چیزوں کا معائنہ ہوتا ہے۔ بہت ساری گائیڈلائنس ہوتی ہیں، جن کو پورا کرنے پر ہی پروسس مکمل ہوتا ہے۔ لیکن اس میں فزیکل ویریفکیشن کو اسکریپ کر دیا گیا اور اس کی جگہ آن لائن ’زوم‘ پر معائنہ شروع کر دیا۔‘‘6 अप्रैल 2022 को डॉक्टर पटेल ने अपने कुछ सदस्यों को co-opt किया और सबकुछ अनदेखा करके उस कमेटी में डाला, जिसके माध्यम से अप्रूवल मिलता है।इतना ही नहीं, उनको full power दिया, ताकि वह इन फार्मेसी कॉलेजों को अप्रूवल दे सकें। ये सब नियमों को तोड़ते हुए किया गया और किसी से कोई चर्चा… pic.twitter.com/cr4SAoCa3B— Congress (@INCIndia) July 7, 2025اس بارے میں مزید تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر اونیکا کہتی ہیں کہ ’’آن لائن ’زوم‘ سے معائنہ تقریباً 9-7 منٹ میں کیا جاتا تھا اور بغیر انفراسٹرکچر دیکھے، بغیر کاغذ دیکھے کالج کو منظوری دے دی جاتی تھی۔ گوگل فارم کی لنک کے تحت ان کے پاس 908 درخواستیں آئی تھیں، اور اس میں 870 درخواستوں کو آن لائن معائنہ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ’’ویریفکیشن کے لیے جس ڈی جی فارما کا ایپ استعمال کیا جاتا تھا، اسے بھی ’ٹیمپر‘ کر دیا گیا۔ پھر معائنہ اور ڈاکیومنٹیشن جاری ہونے کے باوجود 14 اکتوبر 2022 کو اس کا ایکسس دیگر افسران کے لیے بلاک کر دیا گیا۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ ہر ایک ایپرووَل اور معائنہ ڈاکٹر پٹیل خود کر سکیں۔‘‘اس پریس کانفرنس میں کانگریس لیڈر ڈاکٹر اونیکا مہروترا نے 6 اہم سوالات بھی اٹھائے، جو اس طرح ہیں:جب اس گھوٹالے میں وزیر اعظم مودی کے قریبی شخص کا نام آتا ہے تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ کیا وزیر اعظم کو اس شخص کے ملوث ہونے کے بارے میں پتہ ہے؟بی جے پی صدر اور مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا کو ان کی ہی وزارت میں ان کی ناک کے نیچے چل رہے کروڑوں روپے کے رشوت خوری معاملہ میں جوابدہ کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا؟کیا مرکزی وزارت صحت کو ان گھوٹالوں کے پیمانے کے بارے میں پتہ نہیں تھا، یا وہ خاموشی کے ساتھ اس میں شامل تھی؟ معائنہ، منظوری اور بایومیٹرک سسٹم میں اتنی بڑی ہیرا پھیری، اوپر سے خاموش منظوری کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے؟وزارت کی جانکاری کے بغیر معائنہ کے عمل کو آن لائن سسٹم میں کیسے بدلا گیا؟ اگر وزارت کو جانکاری تھی تو اس گھوٹالے کا پتہ کیوں نہیں لگایا گیا اور اسے پہلے کیوں نہیں روکا گیا؟کیا ایف آئی آر میں نامزد لوگوں کے بی جے پی قیادت سے تعلقات کی جانچ سی بی آئی کرے گی؟ کیا سی بی آئی بی جے پی صدر جے پی نڈا کا نام لے گی، جن کی شمولیت کے بغیر یہ بڑے گھوٹالے نہیں ہو سکتے تھے؟کیا وزیر اعظم مودی اب مرکزی وزیر صحت اور بی جے پی صدر عہدہ سے جے پی نڈا کا فوری استعفیٰ مانگیں گے؟