حماس غزہ امن منصوبے کے تحت غیر مسلح نہیں ہونا چاہتی، ذرائع کا دعویٰ

Wait 5 sec.

فلسطین (1 اکتوبر 2025): حماس عہدیداران کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے کی غیر مسلح ہونے کی شق میں ترمیم چاہتی ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں فلسطینی ذرائع نے بتایا کہ حماس کے مذاکرات کاروں نے منگل کو دوحہ میں ترکی، مصری اور قطری عہدیداران کے ساتھ بات چیت کی، مزاحمتی تنظیم کو مجوزہ غزہ امن منصوبے پر جواب دینے کیلیے مزید دو سے تین دن درکار ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے کے تحت فوری جنگ بندی، حماس کے ہاتھوں اسرائیلی یرغمالیوں کی 72 گھنٹوں کے اندر رہائی، مزاحمتی تنظیم کا غیر مسلح ہونا اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا شامل ہے۔یہ بھی پڑھیں: ممکن ہے حماس ٹرمپ کا مجوزہ غزہ امن منصوبہ مسترد کر دے، سینئر عہدیدارلیکن ذرائع کے مطابق حماس غیر مسلح ہونے اور مزاحمتی تنظیموں کے کارکنوں کو جلاوطن کرنے سے متعلق شقوں میں ترمیم چاہتی ہے، اس میں غزہ پٹی سے مکمل اسرائیلی افواج کے انخلا کیلیے بین الاقوامی ضمانتیں اور علاقے کے اندر یا باہر قتل کی کارروائیوں کے خلاف ضمانتوں کا مطالبہ بھی شامل ہے۔فلسطینی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حماس علاقائی اور عرب ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے۔مذاکرات سے واقف ایک اور ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس کی قیادت کے اندر دو خیالات ہیں کہ غیر مشروط منظوری کی حمایت کی جائے کیونکہ اہم بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ضمانت سے جنگ بندی ہو بشرطیکہ ثالث اسرائیل کی طرف سے منصوبے کے نفاذ کی ضمانت دیں، لیکن دوسروں کے اہم شقوں پر بڑے تحفظات ہیں، وہ غیر مسلح ہونے اور کسی بھی فلسطینی شہری کو غزہ سے نکالے جانے کو مسترد کرتے ہیں۔ذرائع نے مزید کہا کہ وہ ایک مشروط معاہدے کی حمایت کرتے ہیں جس میں وضاحتوں کے ساتھ حماس اور مزاحمتی دھڑوں کے مطالبات کو مدنظر رکھا جائے تاکہ غزہ کی پٹی پر قبضے کو جائز نہ بنایا جائے، کچھ دھڑے منصوبے کو مسترد کرتے ہیں لیکن مذاکرات جاری ہیں اور چیزیں جلد واضح ہو جائیں گی۔