میری سیلسٹ : بحری جہاز کا پورا عملہ پراسرار طور پر غائب، ناقابل یقین کہانی

Wait 5 sec.

بحری جہاز ’میری سیلسٹ‘ سمندر کی لہروں پر بہتی ایسی پراسرار کہانی ہے، جو ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی حل طلب ہے۔اس بحری جہاز کے ساتھ ایسا کیا حادثہ پیش آیا تھا کہ یہ لاوارث حالت میں ملا اور 10 افراد پر مشتمل اس کا عملہ پراسرار طور پر غائب تھا۔اس کہانی کا آغاز 7 نومبر 1872 کو ہوا جب ’میری سیلسٹ‘ نامی بحری جہاز امریکی شہر نیو یارک سے اٹلی کی جانب سفر کرنے کے لیے روانہ ہوا، اس جہاز میں صرف 10 لوگ سوار تھے، جس میں جہاز کے کپتان بینجمن بریگز اس کی بیوی اور بیٹی کے علاوہ عملہ کے 7 ارکان شامل تھے۔ اس پر موجود 10 افراد کا انجام آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق 5دسمبر 1872 کو ایک برطانوی جہاز ’دی گراتیا‘ جو پرتگال کے ایک جزیرے کے قریب سفر کر رہا تھا کے عملے نے گہرے سمندر میں ایک لاوارث جہاز کو دیکھا، جو تقریباً ساحل سے 400میل دور پانیوں میں ڈول رہا تھا۔جہاز کے کپتان ڈیوڈ مور نے اسے قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ میری سیلسٹ ہے وہی جہاز جو نیویارک سے کچھ روز قبل روانہ ہوا تھا اور اسے اب تک اٹلی پہنچ جانا چاہیے تھا۔برطانوی جہاز کے عملے نے میری سیلسٹ پر قدم رکھا تو عجیب و غریب قسم کے انکشافات ہوئے کہ جہاز کے کیبن میں مختلف نقشے بکھرے ہوئے تھے، ملاحوں کا سامان اپنی جگہ صحیح سلامت موجود تھا لیکن جہاز کی واحد لائف بوٹ غائب تھی۔ یعنی عملے نے شاید اپنی جان بچانے کے لیے اس لائف بوٹ کا استعمال کیا ہوگا، لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا؟جہاز کے دو پمپوں میں سے ایک کھلا ہوا تھا اور نچلے حصے میں ساڑھے تین فٹ پانی جمع تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ 1 ہزار 701 بیرل صنعتی الکحل بھی تقریباً صحیح سلامت تھا یہاں تک کہ کھانے پینے کا 6 ماہ کا ذخیرہ بھی موجود تھا مگر اسے استعمال کرنے والا ایک بھی شخص موجود نہیں تھا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عملے کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ پورا عملہ ہی جہاز چھوڑ کر کہیں چلا گیا، یہ بات مزید پراسراریت کو جنم دیتی ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے بھی جہاز پر حملہ نہیں کیا تھا تو وہ 10 لوگ لائف بوٹس لے کر اچانک کہاں غائب ہوگئے حالانکہ اُس جگہ سمندری طوفان آنے کے امکانات بھی نہیں تھے۔اگر اس جہاز ’میری سیلسٹ‘ کی ماضی کی بات کی جائے تو یہ اوّل دن سے ہی پراسرار قسم کے معاملات کا شکار رہا، 18 مئی 1861 کو متعارف کیے جانے بعد اسے کئی حادثات پیش آئے۔اس کے پہلے سفر میں ہی اس کا کپتان نمونیا کا شکار ہو کر چل بسا تھا اور سب سے بڑا حادثہ اکتوبر 1867 میں ہوا جب یہ کیپ بریٹن آئی لینڈ کی ریت میں پھنس گیا تھا۔یہ بحری جہاز ایک اور جہاز سے ایک بار ٹکرا بھی چکا تھا اس طرح کے کئی افسوس ناک واقعات اس بحری جہاز کے ساتھ ہو چکے تھے۔بعد ازاں اسے ایک امریکی شخص رچرڈ ڈبلیو ہینس نے خرید لیا اور اس کا نام "میری سیلسٹ” رکھ دیا اور اگلے چند سالوں میں اس میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں اور بالآخر یہ کیپٹن بینجمن سپونر بریگز سمیت ایک گروپ کو فروخت کر دیا گیا تھا۔برطانوی بحری جہاز ’دی گراتیا‘ کے عملے نے اسے 800 میل دور جبرالٹر پہنچادیا، جہاں برطانوی حکام نے تحقیقات کیں لیکن انہیں بھی اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی واضح وجوہات نہ مل سکیں۔بدقسمت” سمجھے جانے کے باوجود ’میری سیلسٹ‘ کئی سال تک زیر استعمال رہا۔ 1885 میں کیپٹن جی سی پارکر نے انشورنس کے حصول کے لیے اسے جان بوجھ کر ایک چٹان سے ٹکرا دیا۔ جب یہ نہ ڈوبا تو وہ سازش بے نقاب ہوگئی مگر جہاز کی حالت اتنی خراب ہوچکی تھی کہ وہ وہیں چھوڑ دیا گیا اور کچھ سالوں کے بعد یہ جہاز پانی میں کہیں غرق ہوگیا۔یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو پایا کہ آخر عملے کو کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاز سے کہیں چلے گئے یا انہیں زبردستی لے جایا گیا۔