اے دردِ عشق! تجھ سے مکرنے لگا ہوں میںمجھ کو سنبھال! حد سے گزرنے لگا ہوں میںپہلے حقیقتوں سے ہی مطلب تھا اور ابایک آدھ بات فرض بھی کرنے لگا ہوں میںہر آن ٹوٹتے عقیدوں کے یہ سلسلےلگتا ہے جیسے آج بکھرنے لگا ہوں میںاے چشمِ یار! میرا سُدھرنا محال تھاتیرا کمال ہے کہ سُدھرنے لگا ہوں میںیہ مہر و ماہ، ارض و سما مجھ میں کھو گئےاِک کائنات بن کے ابھرنے لگا ہوں میںاتنوں کا پیار مجھ سے سنبھالا نہ جائے گالوگو! تمہارے پیار سے ڈرنے لگا ہوں میںدِلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیںگلیوں سے سر...Read more