جمالِ یار بھی کیسا دکھائی دیتا ہےکبھی چنداکبھی تارہ دکھائی دیتا ہےیہ بات ہی تو اسے منفرد بناتی ہےوہ جب ملے تو نیا سا دکھائی دیتا ہےنہ دیکھو شکل، سُنے جاؤ بس وہی آواز یہ سودا ہجر کا سستا دکھائی دیتا ہےمری نظر بھی عجب معجزے دکھاتی ہےشبانِ ہجر میں سایہ دکھائی دیتا ہےمرا فریب تو اِس بار ووٹ ہار گیامزاج شہر کا سچا دکھائی دیتا ہےوہ میری آنکھ کا آنسو تھا پُر فسوں، پُرسوزجو تیری آنکھ سے بہتا دکھائی دیتا ہےجو شب کی اوٹ سے چندا چمکتا رہتا ہےدیارِ غیر میں اپنا دکھائی دیتا ہےخُدا کی...Read more