جسٹس یشونت ورما کے گھر سے کثیر مقدار میں نقدی برآمدگی معاملے نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما نے سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل سہ رکنی جانچ کمیٹی کی ’اِن ہاؤس انکوائری رپورٹ‘ کو سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کر دیا ہے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے ذریعہ رپورٹ کو وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ کو بھیج کر تحریک مواخذہ شروع کرنے کی سفارش کو بھی چیلنج پیش کیا ہے۔ جسٹس یشونت نے جانچ کمیٹی کی رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جسٹس یشونت ورما کی طرف سے سہ رکنی جانچ پینل پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کو غیر جانبدارانہ سماعت کا کوئی موقع نہیں دیا گیا اور ریزلٹ جاری کر دیا گیا۔جسٹس ورما کو دہلی ہائی کورٹ سے الٰہ آباد ہائی کورٹ اسی نقدی واقعہ کے بعد ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ 14 مارچ 2025 کی شب جسٹس ورما کے گھر میں آگ لگنے کے عبد فائر بریگیڈ محکمہ کے فائر فائٹرس نے بڑی تعداد میں جلتے ہوئے نوٹ دیکھ کر سینئر افسران کو مطلع کیا تھا۔ اس پر جسٹس یشونت ورما نے کہا تھا کہ یہ ان کے خلاف کوئی سازش ہے۔پولیس افسران نے دہلی کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس آف انڈیا کو اس بارے میں کچھ اہم جانکاریاں دی تھیں۔ پولیس نے اس واقعہ کو ہائی کورٹ کے جج کا معاملہ ہونے کے سبب درج نہیں کیا تھا۔ واقعہ کے دن جسٹس ورما اور ان کی بیوی دہلی سے باہر تھے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے بعد میں 3 ججوں کی کمیٹی تشکیل دے کر تحقیقات کروائی اور کمیٹی نے اس نقدی واقعہ کی تصدیق کی۔ ساتھ ہی جسٹس ورما کی طرف سے دی گئی صفائی کو خارج کر دیا تھا۔بہرحال، پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے عین قبل جسٹس ورما نے اپنی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کر دی ہے۔ ان کے خلاف اسی مانسون اجلاس میں تحریک مواخذہ لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ مرکزی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ اس معاملے پر سبھی پارٹیاں میں اتفاق رائے قائم کی جائے۔ ایسی بھی خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ تحریک مواخذہ کے لیے کئی اراکین پارلیمنٹ کا دستخط بھی لیا جا چکا ہے۔