نئی دہلی: سپریم کورٹ نے دہلی اور قومی راجدھانی خطہ (این سی آر) سمیت ملک بھر میں آوارہ کتوں سے متعلق اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ صحت مند کتوں کو ٹیکہ کاری (ویکسینیشن) کے بعد واپس سڑکوں پر چھوڑا جا سکتا ہے، تاہم بیمار اور خطرناک کتوں کو پناہ گاہوں میں ہی رکھا جائے گا۔ عدالت نے اس معاملے میں اپنے سابقہ حکم میں ترمیم کرتے ہوئے آوارہ کتوں کو واپس چھوڑنے پر لگی روک ہٹا دی ہے اور واضح ہدایات جاری کی ہیں۔جسٹس وکرم ناتھ کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے جمعہ کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو فریق بنایا گیا ہے تاکہ اس معاملے پر ایک قومی پالیسی بنائی جا سکے۔ عدالت نے کہا کہ آوارہ کتوں کے مسئلے پر انسانوں کے تحفظ اور جانوروں کے حقوق دونوں کا توازن ضروری ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ جو کتے پکڑے گئے ہیں، انہیں لازمی ویکسین دی جائے اور اس کے بعد ہی واپس سڑکوں پر چھوڑا جائے۔ ریبیز سے متاثر یا آوارہ کتوں میں سے جو بیمار یا انتہائی حملہ آور ہوں، انہیں شیلٹر ہوم میں ہی رکھا جائے گا تاکہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ عوامی مقامات پر ہر جگہ کتوں کو کھانا کھلانے پر پابندی ہوگی۔ اس کے بجائے ہر علاقے میں ایک مخصوص اور طے شدہ جگہ مقرر کی جائے گی جہاں جانوروں کو کھلانے کی اجازت ہوگی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس حکم پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔بنچ نے واضح کیا کہ اگر کوئی شخص کتوں کو پکڑنے والی ٹیم کے کام میں رکاوٹ ڈالے گا تو اس پر 25 ہزار روپے جرمانہ لگے گا جبکہ اگر کوئی این جی او ایسا کرے گی تو اس پر 2 لاکھ روپے کا جرمانہ ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات شہریوں اور جانوروں دونوں کے مفاد میں ہیں اور یہ مسئلہ کسی ایک شہر تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ مستقبل میں اس مسئلے پر ایک جامع قومی پالیسی بنانا ضروری ہے تاکہ آوارہ کتوں کی تعداد، ویکسینیشن اور ان کے رہنے کی جگہ کے انتظامات کا حل نکالا جا سکے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ سبھی متعلقہ حکام اور تنظیمیں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھائیں تاکہ شہریوں کی حفاظت اور جانوروں کے حقوق دونوں کا توازن قائم رہے۔یہ فیصلہ طویل بحث اور مختلف فریقین کے دلائل سننے کے بعد آیا ہے۔ عدالت کے اس حکم کے بعد توقع ہے کہ دہلی-این سی آر سمیت دیگر ریاستوں میں آوارہ کتوں سے متعلق واضح پالیسی بنانے میں مدد ملے گی اور اس مسئلے کو بہتر طور پر قابو کیا جا سکے گا۔