انڈین فاسٹ بولر محمد شامی نے حالیہ انٹرویو میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والی ٹرولنگ اور ریٹائرمنٹ کی افواہوں پر دو ٹوک ردعمل دیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا مسلم کرکٹرز کو کبھی کبھار نشانے پر زیادہ لیا جاتا ہے، خاص طور پر جب ٹیم انڈیا پاکستان کے خلاف کھیلتی ہے؟ اس پر شامی نے کہا کہ وہ اس قسم کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے کیونکہ ان کا مقصد صرف ملک کے لیے بہترین کارکردگی دکھانا ہے۔شامی کے مطابق جب کوئی کھلاڑی میدان میں اترتا ہے تو اس کے ذہن میں صرف ٹیم کو جتوانے اور وکٹ لینے کی سوچ ہوتی ہے، نہ کہ یہ کہ سوشل میڈیا پر کیا کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں کوئی مشین نہیں ہوں، سال بھر محنت کرتا ہوں۔ کبھی کامیابی ملے گی، کبھی ناکامی لیکن یہ لوگوں پر ہے کہ وہ اسے کیسے لیتے ہیں۔‘‘ایشیا کپ کے لیے ہندوستانی ٹیم کا اعلان، گِل نائب کپتان، بمراہ کی واپسی، شریئس اور یشسوی باہرانہوں نے واضح کیا کہ کھیل کے دوران سوشل میڈیا سے دور رہنا کھلاڑی کے لیے بہتر ہوتا ہے تاکہ مثبت اور منفی دونوں طرح کے تبصروں سے متاثر نہ ہو۔ شامی نے کہا، ’’سچے فین کبھی نفرت انگیز باتیں نہیں کرتے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ عزت سے اپنی رائے دے۔ ٹرولز کو تو صرف دو جملے لکھنے ہوتے ہیں لیکن کھلاڑی کامیابی کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بہتر کر سکتے ہیں تو میدان میں آئیے اور کوشش کیجیے۔‘‘روی چندرن اشون کا آئی پی ایل کو الوداع، عالمی ٹی 20 لیگز میں نیا سفر شروعریٹائرمنٹ کی خبروں پر بھی شامی نے کھل کر بات کی اور کہا کہ وہ ابھی کھیل سے بیزار نہیں ہوئے۔ ان کے مطابق اگر انہیں بین الاقوامی کرکٹ کے لیے منتخب نہ کیا جائے تو وہ گھریلو سطح پر کھیلتے رہیں گے، کیونکہ ان کا مقصد مسلسل محنت کرتے رہنا ہے۔ شامی نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’کیا میرے ریٹائر ہونے سے کسی کی زندگی بہتر ہو جائے گی؟ اگر ہاں، تو بتائیے۔ میں کس کی زندگی کا بوجھ بن گیا ہوں؟‘‘چتیشور پجارا نے کرکٹ کو کہا الوداع، ٹیسٹ میچوں میں ٹیم انڈیا کی کامیابی میں رہا اہم کردارانہوں نے مزید کہا، ’’کھلاڑی کو ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اس وقت لینا چاہیے جب وہ کھیل سے بور ہونے لگے۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے۔ جب بور ہو جاؤں گا تو خود ہی کھیل چھوڑ دوں گا۔ آپ مجھے منتخب نہ کریں لیکن میں کھیلتا رہوں گا، چاہے بین الاقوامی ہو یا گھریلو سطح پر۔‘‘شامی کے یہ بیانات نہ صرف ان کے مضبوط حوصلے کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ وہ اپنی محنت اور ملک کے لیے کھیلنے کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق کھلاڑیوں پر بے جا تنقید کرنے والے ٹرولز سے زیادہ اہم وہ فینز ہیں جو حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مثبت رویہ اپناتے ہیں۔