نئی دہلی: پٹرول میں 20 فیصد ایتھنول شامل کرنے کے مرکز کے ایتھنول مکسنگ پروگرام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ اکشے ملہوترا نے مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ کروڑوں صارفین اور لاکھوں گاڑی مالکان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں صرف ای 20 یعنی 20 فیصد ایتھنول ملا پٹرول بیچا جا رہا ہے اور صارفین کو ایتھنول فری پٹرول کا کوئی متبادل فراہم نہیں کیا جا رہا، حالانکہ بیشتر گاڑیاں اس ایندھن کے لیے موزوں نہیں ہیں۔درخواست گزار کے مطابق حکومت نے آٹو موبائل کمپنیوں کو گاڑیاں ای 20 کے مطابق ڈھالنے کا مناسب وقت دیے بغیر پالیسی نافذ کر دی جو من مانی اور غیر ضروری ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ ایتھنول ملا پٹرول گاڑیوں کا مائیلیج کم کرتا ہے، انجن اور پرزوں میں زنگ لگنے کا سبب بنتا ہے اور ایندھن کی کارکردگی پر برا اثر ڈالتا ہے۔ اس کے باوجود پٹرول کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ کمپنیوں کو جو مالی فائدہ ملا ہے وہ آخری صارفین تک منتقل نہیں ہوا اور عوام اتنی ہی قیمت ادا کر رہے ہیں جتنی خالص پٹرول کے لیے دیتے تھے۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیمہ کمپنیاں ایتھنول مکس پٹرول کے باعث گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کے دعووں کو بھی مسترد کر رہی ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے بیشتر شہریوں کو علم ہی نہیں کہ وہ کون سا ایندھن خرید رہے ہیں، کیونکہ پٹرول پمپوں پر اس بارے میں کوئی واضح لیبلنگ نہیں کی جاتی۔ امریکہ اور یورپی یونین کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں آج بھی ایتھنول فری پٹرول دستیاب ہے اور ایتھنول مکس پٹرول واضح نشانات کے ساتھ فروخت ہوتا ہے تاکہ صارفین سوچ سمجھ کر انتخاب کر سکیں لیکن ہندوستان میں گاڑی مالکان کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔عرضی گزار نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ مرکز کو ہدایت دی جائے کہ ایتھنول فری پٹرول کی فروخت دوبارہ شروع کی جائے۔ ساتھ ہی ہر پٹرول پمپ پر واضح لیبلنگ لازمی کی جائے تاکہ خریدار کو معلوم ہو کہ وہ ای 20 یا ایتھنول فری پٹرول خرید رہا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں پر ایتھنول مکس پٹرول کے طویل مدتی اثرات کا جامع مطالعہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ اس ایندھن سے جڑے نقصانات کا سائنسی جائزہ لیا جا سکے۔ درخواست گزار کے مطابق حکومت کا یہ فیصلہ من مانی ہے اور عوامی مفاد کے برعکس ہے، جس پر عدالت کی مداخلت ضروری ہے۔