امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فیڈرل ریزرو گورنر لیزا کُک نے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ کُک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو انہیں عہدے سے برطرف کرنے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل ایک خط میں لیزا کُک کی برطرفی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ کُک نے 2021ء میں رہائشی قرضوں کے معاملات میں مبینہ فراڈ کیا تھا، لہٰذا وہ اپنے عہدے پر فائز رہنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔رپورٹس کے مطابق کُک نے امریکی صدر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کی برطرفی کی کوشش غیرقانونی ہے، اس لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔عدالت میں ان کے وکلاء نے مؤقف اپنایا کہ فیڈرل ریزرو ایک آزاد ادارہ ہے اور امریکی قانون کے مطابق اس کے کسی گورنر کو صرف سنگین بدعنوانی یا فرائض کی سنگین خلاف ورزی پر ہی ہٹایا جا سکتا ہے، تاریخ میں آج تک کسی صدر نے براہِ راست کسی گورنر کو برطرف نہیں کیا۔رپورٹس کے مطابق 2022ء میں لیزا کُک کو سابق صدر بائیڈن نے اس عہدے پر تعینات کیا تھا اور وہ ادارے کی تاریخ میں پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جو گورننگ بورڈ کا حصہ بنی ہیں۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قتل کے مقدمات پر سزائے موت نافذ کرنیکا اعلان کیا ہے۔کابینہ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر واشنگٹن ڈی سی میں کوئی کسی کو قتل کرے تو سزا موت ہونی چاہیے۔واضح رہے واشنگٹن میں انیس سو ستاون کے بعد سے سزائے موت نافذ نہیں کی گئی، جبکہ انیس سو اکیاسی میں ڈسٹرکٹ کونسل نے اسے ختم کر دیا تھا۔سزائے موت امریکا میں وفاقی سطح اور کئی ریاستوں میں قانونی ہے، لیکن تمام ریاستیں اسے استعمال نہیں کرتیں۔ 2025 تک، 27 ریاستیں اور وفاقی حکومت سزائے موت کو برقرار رکھا جبکہ 23 ریاستیں اور واشنگٹن ڈی سی نے اسے ختم کر دیا تھا۔ایران جوہری پروگرام پر سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادہامریکا میں سزائے موت عام طور پر سنگین جرائم جیسے کہ قتل، دہشت گردی سے متعلق قتل، یا وفاقی سطح پر منشیات سے متعلق سنگین جرائم کے لیے دی جاتی ہے۔ کچھ ریاستوں میں دیگر جرائم (جیسے بچوں سے زیادتی کے ساتھ قتل) بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔