اندور میں آلودہ پانی کے استعمال سے متعدد ہلاکتیں، انتظامیہ اور سیاسی حلقوں میں ہلچل

Wait 5 sec.

ملک کے سب سے صاف شہر کہلانے والے اندور میں آلودہ پینے کے پانی کے استعمال کے بعد الٹی اور دست کی شکایات سامنے آنے سے صورتِ حال تشویش ناک ہو گئی ہے۔ بھاگیرتھ پورہ علاقے میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد افراد کے بیمار ہونے اور اموات کی خبریں سامنے آئی ہیں، جس کے بعد انتظامیہ اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ الٹی، دست اور شدید کمزوری میں مبتلا ہوئے۔ اہلِ علاقہ کے مطابق اس دوران آٹھ افراد، جن میں چھ خواتین شامل ہیں، کی جان چلی گئی۔ تاہم انتظامیہ نے اب تک صرف تین اموات کی سرکاری طور پر تصدیق کی ہے۔محکمۂ صحت کے ایک افسر نے بتایا کہ بھاگیرتھ پورہ میں نند لال پال (70)، اُرملا یادو (60) اور تارا کوری (65) کی موت ڈائریا کے سبب ہوئی ہے۔ افسر کے مطابق دیگر اموات کے اسباب کا طبی اور انتظامی سطح پر جائزہ لیا جا رہا ہے اور تمام معاملات کی تفصیلی جانچ جاری ہے۔واقعے پر ریاست کے وزیراعلیٰ موہن یادو نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہر متوفی کے اہلِ خانہ کو دو دو لاکھ روپے کی مالی امداد دی جائے گی، جبکہ متاثرہ تمام مریضوں کے علاج کا مکمل خرچ ریاستی حکومت برداشت کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے حکام کو ہدایت دی کہ متاثرہ علاقے میں طبی سہولیات اور صاف پانی کی فوری فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔وزیراعلیٰ کے احکامات کے بعد انتظامیہ نے ذمہ داری طے کرنے کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ بھاگیرتھ پورہ میں میونسپل کارپوریشن کے ایک زونل افسر اور ایک اسسٹنٹ انجینئر کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے، جبکہ ایک انچارج سب انجینئر کی خدمات ختم کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ آلودہ پینے کے پانی کے معاملے کی جانچ کے لیے بھارتی انتظامی سروس کے ایک افسر کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔میونسپل کمشنر دلیپ کمار یادو کے مطابق علاقے میں پانی کی مرکزی پائپ لائن میں ایک ایسے مقام پر رساؤ پایا گیا ہے، جس کے اوپر بیت الخلا تعمیر ہے۔ ان کے مطابق امکان ہے کہ اسی رساؤ کے سبب پینے کا پانی آلودہ ہوا اور بیماری پھیلی۔ادھر کانگریس کی مدھیہ پردیش اکائی کے ترجمان نیلابھ شکلا نے اس معاملے کو انتظامی لاپروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آلودہ پینے کے پانی کا واقعہ اندور کی شبیہ کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اصل ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔