کنگ آف کراچی : برطانوی اسمگلر کی زندگی میں انقلاب کیسے آیا؟ ناقابلِ یقین داستان

Wait 5 sec.

جرائم کی دنیا میں ’کنگ آف کراچی‘ کہلانے والا برطانوی اسمگلر کسی زمانے میں عالمی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کے بڑے نیٹ ورک کا سرغنہ اور ماسٹر مائنڈ تھا جو آج اپنی زندگی کے نئے باب کا آغاز کرچکا ہے۔یہ تبدیلی اس کی زندگی میں کیسے اور کیوں آئی؟ اس حوالے سے اس نے اپنے ماضی سے متعلق رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے اہم حقائق اور انکشافات سے دنیا کو آگاہ کیا ہے۔گُرچیتن “چیٹ” سندھو وہ شخص تھا جو کبھی نشہ آور ادویات اور طاقتور گروہوں کے نیٹ ورک میں نمایاں مقام رکھتا تھا، اُس نے تقریباً 50 ملین ڈالر مالیت کے غیرقانونی اسٹیرائیڈز انجکشنز پاکستان سے یورپ منتقل کیے۔نوّے کی دہائی کے وسط میں سندھو نے ایک ایسا نیٹ ورک قائم کیا جو کراچی سے اسٹیرائیڈز منگواتا اور انہیں نیدرلینڈ، فرانس اور اسپین کے راستے برطانیہ اسمگل کیا کرتا تھا۔اس نے اپنی گناہوں بھرے ماضی کی کہانی ایک کتاب کی صورت میں دنیا کے سامنے لائی جس میں اسمگلنگ سے متعلق تجربے اور اپنی گناہوں سے بھری زندگی سے علیحدگی اختیار کرنے کی وجوہات بیان کیں۔چیٹ سندھو کا تعلق دراصل نیوکاسل برطانیہ سے ہے مگر اُس کی کہانی کا آغاز پنجاب پاکستان سے برطانیہ ہجرت کرنے والے ایک عام خاندان سے ہوتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ بچپن میں اُس کا خواب گرافک آرٹسٹ بننے کا تھا مگر اُس کے والد نے اُسے خاندانی کاروبار کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے وہ 21 سال کی عمر تک اپنی دکان پر کام کرتا رہا اور یہی رکاوٹ اسے اُس راہ پر لے گئی جس پر اسے نہیں جانا چاہیے تھا۔کچھ عرصے بعد اُس نے نیوکاسل کے تجارتی مرکز میں ایک فیشن شاپ کھولی جہاں وہ مشہور برانڈز فروخت کرتا تھا مگر کاروبار زیادہ نہ چلا یہی وہ وقت تھا جب اُس کی زندگی نے نیا موڑ لیا۔ جس کے بعد چیٹ سندھو  نے بطور باؤنسر نائٹ کلبوں میں کام کرنا شروع کیا۔ وہاں اُس کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جو اسٹیرائیڈز اور دیگر نشہ آور اشیاء کے بڑے کاروباری تھے۔اس نے بتایا کہ مجھے وہ زندگی اچھی لگنے لگی جس میں ایڈونچر اور خوب پیسہ تھا، میں سوچتا تھا اگر کرنا ہی ہے تو کچھ بڑا کروں اس لیے میں نے فیصلہ کہ یہ سامان اب میں خود امپورٹ کروں گا۔یوں کرتے کرتے اُس کی اسمگلنگ کی سرگرمیاں بین الاقوامی سطح پر پہنچ گئیں، وہ پاکستان سے یورپ کے راستے برطانیہ میں منشیات منگوانے لگا۔ اسی دوران کراچی میں اُس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے مقامی لوگ اُسے “کنگ آف کراچی” کہنے لگے۔اس نے لکھا کہ کراچی کے بیشتر ٹیکسی ڈرائیورز میرے لیے لڑتے تھے کہ کون مجھے گھمانے لے جائے گا۔ وہاں میں نے پولیس اور نارکوٹکس افسران سے بھی رابطے قائم کر رکھے تھے، بس وہیں سے یہ ’کنگ آف کراچی‘ کا لقب مشہور ہوگیا۔مختصراً یہ کہ آخر کار ایک اسمگلنگ کے دوران وہ گرفتار ہوا اور اُسے اسپین کی بدنامِ زمانہ جیل فونٹکالینٹ میں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی جو یورپ کی سخت ترین جیلوں میں شمار ہوتی ہے۔سال 2002میں جیل سے رہائی کے بعد وہ برطانیہ واپس آیا مگر ایک سال کے اندر پھر پرانے دھندے میں جا پھنسا اس کا کہنا تھا کہ حالانکہ مجھے اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے تھا جو بد قسمتی نہیں سیکھا۔ دوسری بار وہ بلیک میلنگ اور قحبہ گری کے مقدمے میں پکڑا گیا اور ساڑھے 6 سال قید کاٹنی پڑی۔سال 2007میں رہائی کے بعد وہ کہتا ہے کہ میں نے فیصلہ کیا کہ بس اب بہت ہوگئی اس سلسے کو ختم ہونا چاہیے، میں نے اپنے والدین کو بہت تکلیف دے دی اب مزید نہیں۔ میں لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جرم کا انجام کتنا بھیانک ہوتا ہے۔جیل سے رہائی کے بعد چیٹ سندھو نے اپنی مجرمانہ زندگی سے توبہ کرتے ہوئے دو کتابیں لکھی ہیں جن کے نام “From King of Karachi to Lockdown in the Costa Del Crime” اور“Self Made, Dues Paid” ہیں۔ اس کی یہ دونوں کتابیں اُس کے جرائم، جیل کے تجربے اور اصلاح کے سفر کی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں اسٹیرائیڈز کے استعمال پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں جبکہ اُس کے خیال میں یہ مسئلہ طبی نقطۂ نظر سے حل کیا جانا چاہیے نہ کہ مجرمانہ انداز میں۔ اب چیٹ سندھو ایک ’سی بی ڈی‘ کمپنی چلاتا ہے اور اپنی اصلاح یافتہ زندگی کو فروغ دے رہا ہے۔یہ ہے اُس شخص کی کہانی جسے دنیا کبھی ’کنگ آف کراچی‘ کہہ کر پکارا کرتی تھی اور آج وہ اب اپنے ماضی کے گناہوں سے تائب ہو کر ان پر ندامت کا اظہار کرتا ہے۔