مہاراشٹر واقع پونے ضلع کے نگوڈاگھر گاؤں کی 12 سالہ ادیتی پارتھے سرخیوں میں ہے۔ غریب گھر سے تعلق رکھنے والی ادیتی کی کہانی محنت، لگن اور خوابوں کی بلندی تک پہنچنے کی تحریک دیتی ہے۔ یہ بچی ہر صبح 3.5 کلومیٹر پیدل چل کر اسکول جاتی ہے اور شام کو اپنی خالہ کے گھر واپس آتی ہے۔ اس کے گھر والوں کے پاس اسمارٹ فون یا اچھے کمپیوٹر جیسے وسائل نہیں ہیں، لیکن ادیتی نے کبھی ہار نہیں مانی۔ اب یہ بچی ’نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن‘ (ناسا) جانے والی ہے۔دراصل ادیتی کو پونے ضلع پریشد کی جانب سے منعقدہ ’ناسا ٹور‘ کے لیے منتخب کردہ 25 اسٹوڈنٹس میں شامل کیا گیا ہے۔ ضلع پریشد اور ’انٹر یونیورسٹی سینٹر فار ایسٹروفزکس اینڈ ایسٹرونومی‘ (آئی یو سی اے اے) کے اشتراک سے ششم و ہفتم جماعت کے 75 طلبا کا انتخاب 3 مرحلوں کے امتحان کے بعد کیا گیا۔ پہلے مرحلہ میں 13 ہزار طلبا نے شرکت کی، جن میں سے ہر بلاک کے سرفہرست 10 فیصد طلبا کو دوسرے مرحلے کے لیے منتخب کیا گیا۔ دوسرے مرحلہ میں طلبا نے آن لائن ایم سی کیو امتحان دیا۔ آخری مرحلہ میں 235 طلبا کے انفرادی انٹرویو لیے گئے، جن میں ادیتی کا نام ان 25 طلبا میں شامل ہوا جنہیں ’ناسا ٹور‘ کے لیے منتخب کیا گیا۔گھر والوں کے مطابق ادیتی نے نہ صرف تعلیمی شعبہ میں ذہانت دکھائی، بلکہ کھیل کود اور تقریر و رقص وغیرہ میں بھی اپنے ہنر کا مظاہرہ کیا۔ اس کے اسکول کی معلمہ ورشا کوتھواڑ نے بتایا کہ ادیتی کے ناسا ٹور کے لیے منتخب ہونے سے متعلق خبر سامنے آنے کے بعد پورے اسکول میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ادیتی کو اب ایک سائیکل اور بیگ بھی دیا گیا ہے، ساتھ ہی اسکول نے اس کے لیے ایک لیپ ٹاپ کی درخواست بھی دی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ادیتی کی اس کی خالہ نے بچپن سے پرورش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان کبھی ہوائی جہاز کے قریب بھی نہیں گیا، اس لیے ادیتی کا امریکہ جا کر ناسا کا دورہ کرنا ان کے لیے فخر کی بات ہے۔ ادیتی کے لیے یہ پہلا موقع ہوگا جب وہ ممبئی سے ہوائی جہاز پر سوار ہو کر امریکہ جائے گی۔ وہ وہاں ناسا کے سائنسدانوں سے ملاقات کرے گی اور ان کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھے گی۔بہرحال، ناسا جانے کی خبر سے ادیتی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ کہتی ہے ’’جب پرنسپل نے میری خالہ کو بتایا کہ میرا انتخاب ہوا ہے تو وہ بے حد خوش ہوئیں۔ میں نے صبح 7 بجے اپنی ماں کو فون کیا۔ اس کے بعد ماں نے مجھے 15 مرتبہ فون کیا۔‘‘ ادیتی کی یہ کامیابی دیہی اسکولوں کے ان ہزاروں بچوں کے لیے مثال ہے جن کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ مشکلات کے باوجود ادیتی نے یہ ثابت کر دیا کہ محنت، لگن اور پختہ ارادے سے خوابوں کو حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔