دریائے ہڈسن کے کنارے آباد، روشنیوں اور خوابوں کے شہر نیویارک کی سیاست میں آج ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے، جہاں ترقی، تنوع اور جدت کے اس عالمی مرکز نے اپنے پہلے مسلم میئر ظہران ممدانی کو منتخب کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق ظہران ممدانی تاریخ رقم کرتے ہوئے نیویارک سٹی کے پہلے مسلم میئر منتخب ہو گئے، 34 سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ نے سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست دے کر امریکا کے سب سے بڑے شہروں میں ایک نئی سیاسی تاریخ رقم کر دی۔ایک سال پہلے تک سیاسی طور پر غیر معروف رہنے والے ممدانی نے مختصر عرصے میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔ ان کی متحرک سوشل میڈیا مہم، عام لوگوں کے مسائل پر توجہ اور نوجوان ووٹروں سے جڑنے کی حکمت عملی نے انہیں مقبول رہنما بنا دیا۔پس منظر اور ابتدائی زندگیظہران ممدانی یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے اور سات برس کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ نیویارک منتقل ہوئے۔ وہ معروف فلم ساز میرا نائر اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر محمود ممدانی کے بیٹے ہیں۔انہوں نے برونکس ہائی اسکول آف سائنس سے تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے اسکول کی پہلی کرکٹ ٹیم قائم کی، بعد ازاں بوڈوئن کالج سے افریقانا اسٹڈیز میں ڈگری حاصل کی اور "اسٹوڈنٹس فار جسٹس ان پیلسٹائن” کے بانی رکن بنے۔ممدانی نے 2018 میں امریکی شہریت حاصل کی ، سیاست میں آنے سے پہلے وہ کمیونٹی آرگنائزر اور ہاؤسنگ کونسلر کے طور پر کام کرتے رہے۔سال 2020 میں وہ نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، جہاں وہ پہلے جنوبی ایشیائی، پہلے یوگنڈا نژاد اور صرف تیسرے مسلم رکن تھے۔انہوں نے 2021 میں شامی نژاد امریکی فنکارہ رما دواجی سے ملاقات کی، اور رواں سال دونوں نے سٹی ہال میں شادی کی۔انتخابی مہم اور عوامی ایجنڈاظہران ممدانی نے اپنی مہم میں مہنگائی، رہائش، چائلڈ کیئر اور عام شہریوں کے معیارِ زندگی کو مرکزی نکتہ بنایا۔ ان کے منشور میں شامل اقدامات میں شامل ہیں کرایوں میں فریز اور ناہنجار مالکان کے خلاف سخت کارروائینیویارک میں بسوں کا مفت سفری نظامسرکاری ملکیت کے سستے گروسری اسٹورز کا قیامامیروں پر زیادہ ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں اضافہبچوں کے لیے یونیورسل چائلڈ کیئر پروگرامممدانی نے اپنی مہم کے دوران اردو، ہندی اور ہسپانوی زبانوں میں عوام سے خطاب کیا، مساجد، کمیونٹی مراکز اور رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں تک رسائی حاصل کی، اور نیویارک کے مختلف نسلی و مذہبی گروہوں کو یکجا کیا۔سیاسی چیلنجز اور ردعملانتخابی مہم کے دوران ممدانی کو اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور ٹرمپ کے حامی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا رہا، ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار ان پر تنقید کی اور حتیٰ کہ انہیں ملک بدر کرنے کی دھمکی بھی دی۔تاہم ممدانی نے اپنے پیغام پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ “ہم صرف اس شہر کو نہیں، بلکہ اس سوچ کو بدلنے آئے ہیں جو سمجھتی ہے کہ عام لوگ کچھ نہیں بدل سکتے۔”ماہرین کے مطابق ممدانی کی کامیابی نیویارک ہی نہیں بلکہ امریکی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہے، جہاں متنوع پس منظر رکھنے والے رہنما عوامی مسائل کو مرکزی حیثیت دے رہے ہیں۔