جی-7 کی مشترکہ پریس ریلیز میں تہران کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات حقیقت سے عاری: ایران

Wait 5 sec.

تہران نے جی-7 ممالک کے حالیہ بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد، غیر ذمہ دارانہ اور سیاسی مقاصد پر مبنی قرار دیا ہے۔ ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اپنے باضابطہ ردِ عمل میں کہا کہ جی-7 کی مشترکہ پریس ریلیز میں تہران کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات حقیقت سے عاری ہیں اور مخصوص مغربی بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش ہیں۔ترجمان کے مطابق جی-7 کے بیان میں ایران پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ یوکرین جنگ میں روس کو فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔ بقائی نے ان الزامات کو ’سراسر جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے ہمیشہ جنگ کے خاتمے، مذاکرات اور سفارتی راستے کے ذریعے مسائل کے حل کی حمایت کی ہے۔ ان کے مطابق تہران نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ یوکرین تنازع میں وہ کسی بھی قسم کی فوجی شمولیت یا معاونت کا حصہ نہیں۔یہ بیان دراصل کینیڈا کے علاقے نیاگرا میں ہونے والے جی-7 وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد سامنے آیا، جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، اٹلی اور کینیڈا شامل ہیں۔ وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں ایران پر نہ صرف روس سے تعاون کے الزامات دہرائے بلکہ تہران سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے تقاضوں پر مکمل عمل کرے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ ’شفاف تعاون‘ فراہم کرے۔ مزید یہ کہ ایران کے تمام جوہری مراکز کے معائنے کی اجازت دی جائے۔جی-7 نے ایران پر یہ زور بھی دیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرے، جس کی پشت پناہی ای۔3 ممالک یعنی فرانس، برطانیہ اور جرمنی بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ ستمبر میں بحال کیے گئے پرانے پابندیوں پر سختی سے عمل کریں۔ایران کے ترجمان نے ان مطالبات اور الزامات کو ’دوہرا معیار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جی-7 ممالک ایک جانب تہران پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ ای۔3 اور امریکہ کی ان ’’غیر قانونی اور یکطرفہ‘‘ کارروائیوں کی حمایت کر رہے ہیں جن کے ذریعے 2015 کے جوہری معاہدے کی تنازعہ حل شق کا غلط استعمال کرتے ہوئے سابقہ پابندیوں کو دوبارہ نافذ کیا گیا۔ بقائی نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے بلکہ ان ممالک کی جانب سے اعتماد سازی کے عمل کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل خود ایران کے پرامن جوہری مراکز پر حملے کر چکے ہیں، جو کہ ’’کھلی جارحیت‘‘ ہے۔ ایسے حالات میں جی-7 کا ایران سے آئی اے ای اے کے ساتھ مزید تعاون کا مطالبہ محض ’’سیاسی مداخلت اور کھلا تضاد‘‘ ہے، کیونکہ ان حملوں کا ذکر کیے بغیر اس طرح کے مطالبے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز باقی نہیں رہتا۔ترجمان کے مطابق تہران عالمی برادری کو بارہا یہ باور کروا چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران نے کہا کہ وہ شفافیت اور تعاون سے کبھی گریز نہیں کرتا، لیکن یکطرفہ دباؤ کی سیاست کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ایران نے امید کا اظہار کیا کہ مغربی ممالک غیر ذمہ دارانہ بیانات اور بے بنیاد الزامات کے بجائے تعمیری مذاکرات کو ترجیح دیں تاکہ خطے میں تناؤ کے بجائے استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔