پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان دونوں ممالک کی جنگ نے ایران کو بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔ اس کشیدگی نے افغانستان کی معیشت اور کاروبار کو اثر انداز کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان کا رجحان اب ایران اور سنٹرل ایشیا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعہ، دوائیوں کی سپلائی پر روک اور ٹرانزٹ پالیسی کے سبب افغانستان نے ایران کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا دہائیوں پرانا معاشی دبدبہ کمزور ہو رہا ہے اور ایران کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔گزشتہ 6 مہینوں میں افغانستان-ایران کاروبار 1.6 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جو پاکستان کے ساتھ ہوئے 1.1 بلین ڈالر کے کاروبار سے بہت زیادہ ہے۔ افغانستان اب چابہار بندرگاہ اور ایرانی ٹرانزٹ روٹس کا استعمال کر کے پاکستان کے انحصار سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ طالبان کی وزارت برائے صنعت و کاروبار کے ترجمان اخوندزادہ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان سرحد بند بھی کر دے تو چابہار کے ذریعہ ہمارا کاروبار نہیں رُکتا۔طالبان کے نائب وزیر اعظم ملا برادر نے پاکستان پر معاشی و انسانی حملوں کو سیاسی اسلحہ کی طرح استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے افغان کاروباریوں کو 3 مہینے میں پاکستان کے ساتھ اپنے سبھی کانٹریکٹ نمٹانے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ اس قدم سے سب سے بڑا اثر دوائیوں کے کاروبار پر پڑ رہا ہے۔ پاکستان سے آنے والی دوائیاں سستی، آسانی سے دستیاب اور جلد پہنچنے والی ہوتی ہیں۔طالبان اب ہندوستان، ترکی، ایران اور وسط ایشیا سے دوائیاں منگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ لیکن بڑا مسئلہ ہے غیر ملکی کمپنیوں کا تیز رجسٹریشن عمل، منطور شدہ دوائیوں کی لسٹ بڑھانا، اور 300 کنٹینر دوائیوں کو طالبان نے قندھار کسٹم میں روک رکھا ہے، جس سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ایران کے میلک اور زاہدان سرحدی پوائنٹس اب افغان تجارت کے نئے مراکز بن گئے ہیں۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کے فیصلے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران اور سنٹرل ایشیا روٹ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ افغان تجارت پاکستان سے ہٹ کر مستقل متبادل تلاش کر رہا ہے۔