کاروباری شخص نے ریاستی حکومت سے اپنا حق مانگنے کےلیے17 بچوں کو یرغمال بنایا مگر بالآخر پولیس کی کارروائی میں مارا گیا۔کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی پرتیں اس قدر پیچیدہ ہوتی ہیں کہ انھیں سمجھا بعض کافی مشکل ہوجاتا ہے، ممبئی پچھلے ماہ پیش آنے والا واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جس میں پوائی مرول کے علاقے میں آڈیشن دینے کے لیے آنے والے بچوں کو یرغمال بنالیا گیاممبئی میں واقع مہاویر کلاسک بلڈنگ کمپلیکس میں موجود اسٹوڈیو وہ جگہ بنی جہاں 17 بچوں کو یرغمال بنایا گیا اور حیران کن عمل کسی اور نے نہیں بلکہ انھیں وہاں مدعو کرنے والے روہت آریہ نے خود انجادم دیا۔روہت آریہ نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے مطالبات پورے کیے جائیں، ابتدائی معلومات یہ بتاتی ہیں کہ ملزم کا پیسہ ایک سرکاری منصوبے میں پھنس گیا تھا اسے ایک اسکول کی تزئین و آرائش کا ٹھیکہ دیا گیا تھا اور اس کے پیسے ادا نہیں کیے گئے تھے۔بچوں کو یرغمال بنانے کے بعد ملزم روہت کا مطالبہ سامنے آیا کہ ‘میرے کچھ سوالات ہیں اور میں کچھ لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہوں، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے’۔روہت آریہ کا کہنا تھا کہ ‘میں دہشتگرد نہیں ہوں اور نہ ہی میں پیسے کا مطالبہ کررہا ہوں، میں صرف ان لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہوں جو میرے جوابدہ ہیں اسی لیے میں نے ان بچوں کو یرغمال بنایا ہے’۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب روہت کو یہ ٹھیکہ ملا تو دیپک کیسرکر ریاست کے وزیر تعلیم تھے اور روہت کا الزام تھا کہ اس کام کے لیے انھیں معاوضہ نہیں ملا جس کےلیے انھوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔کاروباری شخصیت روہت کی ایک مبینہ ویڈیو بھی زیرگرش ہیں جس میں کہہ رہے ہیں کہ ’میں نے خودکشی کرنے کے بجائے بچوں کو یرغمال بنا لیا، میں نے ایک منصوبہ بنایا اور کچھ بچوں کو یرغمال بنایا، میرے مطالبات سادہ اور اخلاقی جواز رکھتے ہیں۔کچھ رپورٹس کے مطابق روہت آریہ نے ادائیگی کے لیے کئی بار کیسرکر کے گھر کے باہر احتجاج بھی کیا لیکن حکومت کی طرف سے انھیں کوئی جواب نہیں ملا، تاہم وزیرتعلیم اس کی نفی کرتے نظر آئے۔بھارتی میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ذاتی طور پر میں نے روہت آریہ کی مدد کی اور اسے چیک کے ذریعے ادائیگی کی، مجھے نہیں لگتا کہ دو کروڑ روپے کی رقم بقایا تھی۔، محکمہ سے رابطہ کرکے وہ یہ معاملہ حل کرسکتا تھا۔اس واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق دوپہر 3 سے 3:30 بجے کے درمیان انھوں نے دیکھا کہ بچے عمارت کی کھڑکیوں سے باہر جھانک رہے ہیں اور مدد کے لیے پکار رہے ہیں، جس کے بعد بات پولیس تک پہنچ گئی۔ممبئی پولیس نے فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کارروائی کا انجام بچوں سمیت تمام مغویوں کی بازیابی اور روہت آریہ کی موت کی صورت میں ہوا۔بچوں کو بچانے کےلیے ریسکیو آپریشن کے دوران زخمی ہونے کے بعد روہت آریہ کو اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ نہ بچ سکے،پولیس حکام کے روہت آریہ اور وہاں موجود سیکیورٹی ٹیم کے درمیان تقریباً ایک گھنٹہ 45 منٹ تک مذاکرات ہوئے اور روہت نے اپنے مطالبات سامنے رکھے تاہم وہ نہ مانا تو پھر آپریشن کرنا پڑا۔مذاکرات کے دوران پولیس نے اسے کہا کہ وہ بچوں کو بحفاظت رہا کرے ورنہ اسے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، روہت کا رویہ جارحانہ رہا اور اس نے دروازہ کھولنے سے انکار کیا جس پر پولیس نے اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دیمذاکرات کی ناکامی کے بعد پولیس حکام نے کارروائی کی اور باتھ روم کی کھڑکی سے اسٹوڈیو میں داخل ہوئے، بالآخر ممبئی پولیس نے ریسکیو آپریشن شروع کیا اور تمام بچوں کو بحفاظت نکال لیا لیکن روہت اس آپریشن میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔پانچویں جماعت کے طالب علم کے اغوا کی کوشش کیسے ناکام ہوئی؟