کیف (12 نومبر 2025): یوکرین اب اپنے حملہ آور حریف روس کے تباہ کن ڈرونز کا شکار مچھلیوں کی طرح کرے گا، جس کے لیے اس نے فرانس سے حیرت انگیز ٹیکنالوجی منگوا لی۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ فرانس کے عام ماہی گیری کے جال، جو کبھی سمندر کی گہرائیوں میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہوتے تھے، اب یوکرین کے آسمانوں میں روسی ڈرونز کا شکار کرنے لگے ہیں، یعنی فرانسیسی ماہی گیری کے جال اب یوکرین کا نیا دفاعی ہتھیار بن گیا ہے۔برطانوی خیراتی ادارے کرنک سولیڈیریٹیز نے فرانس سے ایسے جالوں کی 2 بڑی کھیپیں یوکرین بھیجی ہیں، جن کی مجموعی لمبائی 280 کلومیٹر ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق یہ جال اب محاذِ جنگ پر فوجیوں اور شہریوں کو ڈرون حملوں سے بچانے کے لیے ایک غیر متوقع مگر مؤثر دفاعی آلہ بن چکے ہیں۔روس کی جانب سے استعمال کیے جانے والے چھوٹے اور کم قیمت ڈرونز عام طور پر دھماکا خیز مواد سے بھرے ہوتے ہیں، جو دور سے 25 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں یوکرینی افواج ان جالوں سے سرنگ نما حفاظتی ڈھانچے تیار کر رہی ہیں، جن میں ڈرون کے پر الجھ کر نظامِ پرواز ناکام ہو جاتا ہے۔ادارے کے لاجسٹکس سربراہ کرسچین ابازیو کے مطابق یہ جال دراصل گھوڑوں کے بال سے بنے ہوتے ہیں اور گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن اب یہ جنگی میدان میں ڈرون کے حملے کی طاقت برداشت کرنے کے قابل ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ان جالوں کا استعمال طبی کیمپوں کی حفاظت کے لیے کیا گیا، مگر اب انھیں سڑکوں، پلوں اور اسپتالوں کے داخلی راستوں پر بھی نصب کیا جا رہا ہے۔اٹلی میں ٹینس چیمپیئن شپ کے فائنلز کے دوران 2 تماشائیوں کی اچانک موتیوکرین کی 93 ویں بریگیڈ کی رابطہ افسر ایرینا ریباکووا کے مطابق دونیتسک کے علاقے میں اب ہر جگہ ایسے جالی دار سرنگی نظام بنائے جا رہے ہیں، انھوں نے تسلیم کیا کہ روسی ڈرون آپریٹرز ان جالوں سے بچنے کی نئی ترکیبیں آزما رہے ہیں، تاہم ان کے بقول یہ کوئی جادوئی حل نہیں، مگر ہماری حفاظت کے لیے ایک نہایت مؤثر رکاوٹ ضرور ہیں۔سویڈن اور ڈنمارک کے ماہی گیر بھی سیکڑوں ٹن پرانے جال یوکرین کو عطیہ کر رہے ہیں تاکہ یہ حفاظتی نظام مزید وسیع کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ جولائی 2025 تک یوکرین روزانہ 500 سے زائد روسی ڈرون حملوں کا سامنا کر رہا تھا۔