قومی راجدھانی میں فضائی آلودگی اس وقت خطرناک سطح پر ہے۔ اس سے بچے، بوڑھے اور اسکول، کالج جانے والے طلباء سبھی لوگ پریشان ہیں۔ ایسی صورت حال میں امید ہوتی ہے کہ بڑے اور مہنگے اسکول کم از کم کلاس روم کے اندر صاف ہوا کو یقینی بنائیں گے۔ مگر ایک خاتون ٹیچر نے بتایا کہ دہلی کا ایک اسکول ہر طالب علم سے تقریباً 60,000 روپے ماہانہ فیس لیتا ہے، اس کے باوجود وہاں لگےایئر پیوریفائر ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں اور بچے آلودہ ہوا میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔خاتون ٹیچر کے مطابق اسکول دعویٰ کرتا تھا کہ کلاس روم کا انڈور اے کیو آئی 30–45 رہتا ہے لیکن جب عملے نے اصل اے کیو آئی چیک کیا تو یہ 145 سے 200 کے درمیان پایا گیا، جو بہت خراب سطح ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب اساتذہ نے اے کیوآئی بڑھنے کے بارے میں شکایت کی تو اسکول کا ایئر کوالٹی انسپکٹر الٹے انہیں کو ڈانٹنے لگا۔ اتنا ہی نہیں اس نے اے کیوآئی میٹر کو منی پلانٹ کے سامنے رکھ کر دکھایا کہ اب ریڈنگ ’درست‘ ہے اور پھر اصل ریڈنگ بتانے سے گریز کیا۔دہلی کی ہوا مسلسل خراب، آلودگی کے سبب سانس لینا ہوا مشکل، اے کیو آئی 500 سے تجاوزاسکول عملے کا ماننا ہے کہ کلاس روم میں پرانے ایئر پیوریفائر تقریباً کام ہی نہیں کر رہے ہیں۔ ٹیچر نے چھوٹے بچوں کے لیے بہتر ایئر پیوریفائر (جیسےڈائیسن) لگانے کا مطالبہ کیا ۔ ٹیچر کا کہنا ہے جب اسکول ہر سال فیس کے طورپرلاکھوں روپے لے رہا ہے تو بجٹ نہ ہونے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں ہر روز چھوٹے بچوں کو کھانستے، آنکھیں رگڑتے اور بھاری سانس لیتے دیکھتی ہوں۔ اتنی زیادہ فیسیں لینے والے اسکول بھی اگر محفوظ ماحول فراہم نہیں کر سکتے تو ہم اپنے بچوں کو کہاں بھیجیں؟’’ اگر آپ کے پھیپھڑے کمزور ہیں تو فوراً دہلی چھوڑ دیں‘ آلودگی پر ڈاکٹر رندیپ گلیریا کاانتباہاس سلسلے میں کئی دیگر لوگوں نے کہا کہ کیا دہلی کے بڑے اسکول طلباء کی حفاظت کو سنجیدگی سے لیتے ہیں؟ کیا اتنی زیادہ فیس لینے کے باوجود اسکول کسی ذمہ داری سے بھاگ سکتے ہیں؟ کئی لوگوں نے کہا کہ اس معاملے میں ڈی پی سی سی یا کسی اور سرکاری محکمے میں شکایت کرنا چاہئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ زیادہ فیس لینے کے باوجود اسکولوں کا اس طرح کا رویہ دل توڑ دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ مسئلہ دہلی کے آلودگی بحران اور نجی اسکولوں کی لاپرواہی کے بارے میں بڑی بحث کو جنم دے رہا ہے۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’آج تک‘)