برطانوی جریدے نے غزہ سے متعلق امریکا کا نیا ہولناک منصوبہ بے نقاب کر دیا

Wait 5 sec.

لندن (15 نومبر 2025): برطانوی جریدے گارڈین نے غزہ سے متعلق امریکا کا ایک نیا ہولناک منصوبہ بے نقاب کیا ہے، جس کے تحت اس فلسطینیوں کے اس محصور شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔برطانوی جریدے گارڈین نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے غزہ کی طویل مدت تقسیم کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے، امریکی فوجی منصوبہ بندی کی دستاویزات کے مطابق امریکا غزہ کی طویل المدتی تقسیم کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے تحت ایک ’’گرین زون‘‘ ہوگا جو اسرائیلی اور بین الاقوامی فوجی کنٹرول میں ہوگا، جہاں تعمیرِ نو کا آغاز ہوگا، اور ایک ’’ریڈ زون‘‘ ہوگا جسے کھنڈرات کی صورت میں چھوڑ دیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق غزہ کے مشرقی حصے میں ابتدائی مرحلے میں غیر ملکی فوجی دستے اسرائیلی اہلکاروں کے ساتھ تعینات ہوں گے، اور اس طرح تباہ شدہ پٹی موجودہ اسرائیلی زیرِ کنٹرول ’’یلو لائن‘‘ سے کٹی رہے گی۔امریکی فوجی منصوبوں نے اس بات پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں کہ آیا واشنگٹن گزشتہ ماہ اعلان کردہ جنگ بندی کو ایک دیرپا سیاسی سمجھوتے میں بدلنے میں واقعی سنجیدہ ہے، جس کے تحت غزہ پر فلسطینی حکمرانی کا وعدہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔ غزہ کے مستقبل سے متعلق منصوبے نہایت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، جو اس پیچیدہ اور دیرینہ تنازع کو حل کرنے اور 20 لاکھ فلسطینیوں کو خوراک اور پناہ سمیت امداد فراہم کرنے کی ایک ہنگامی اور بے ربط کوشش کی عکاسی کرتے ہیں۔اسرائیل جہاز بھربھر کے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک بے دخل کرنے لگارپورٹ کے مطابق گرین زون کی تعمیر نو سے فلسطینیوں کو منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے، جریدے کا کہنا ہے کہ امریکا نے ’متبادل محفوظ کمیونٹیز‘ کا منصوبہ ترک کر دیا ہے، اور غزہ میں مستقل امن اور فلسطینی حکمرانی سے متعلق مریکی وعدوں پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔امریکی منصوبوں پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے شدید تحفظات برقرار ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مؤثر منصوبہ بندی، اسرائیلی فوج کے انخلا، اور وسیع پیمانے پر تعمیرِ نو کے بغیر، 2 سال کی تباہ کن جنگ کے بعد بین الاقوامی امن دستے کا غزہ کے ایک غیر یقینی صورتِ حال میں پھنس جانے کا خطرہ ہے۔امریکا نے یورپی ممالک کو امن فورس کا بنیادی حصہ بنانے کی تجویز دی لیکن یورپی ممالک کی جانب سے فوج بھیجنے سے ہچکچاہٹ کے باعث یہ منصوبہ غیر حقیقی قرار پایا۔ثالثوں نے خبردار کیا ہے کہ تقسیم شدہ غزہ میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے جو ’نہ جنگ ہے نہ امن‘، جہاں باقاعدہ اسرائیلی حملے ہوں گے، قبضہ مزید مضبوط ہو جائے گا، فلسطینیوں کی اپنی حکمرانی نہیں ہوگی، اور فلسطینی گھروں اور کمیونٹیز کی محض محدود تعمیرِ نو ہو سکے گی۔بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کی تشکیل ٹرمپ کے 20 نکاتی ’امن منصوبے‘ کی بنیاد ہے۔ امریکا کو امید ہے کہ اگلے ہفتے کے آغاز میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک مسودۂ قرارداد منظور ہو جائے گا، جو اس فورس کو باضابطہ اختیارات دے گا، اور اس کے بعد فوجی دستوں کی شمولیت کے واضح خدوخال سامنے آئیں گے۔ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا ’’پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں قرارداد منظور کروانی ہے۔ ممالک اس وقت تک ٹھوس وعدے نہیں کریں گے جب تک وہ وہ تحریری متن نہ دیکھ لیں جو منظور کیا جائے گا۔‘‘ ٹرمپ یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ اسرائیلی انخلا کا راستہ ہموار کرنے کے لیے غزہ میں امریکی فوجی تعینات کریں یا تعمیر نو کے لیے فنڈنگ دیں، وہ اپنے منصوبوں کے لیے قیمت دینے کو تیار نہیں۔رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر غزہ میں چند سو اہلکار تعینات ہوں گے بعد ازاں 20 ہزار فوجیوں تک فورس بڑھانے کی تجویز ہے، اور جارحانہ کارروائیوں کے خدشات کی وجہ سے فوجی دستے صرف گرین زون میں تعینات ہوں گے۔رپورٹ میں واضح کہا گیا ہے کہ اسرائیلی انخلا کا کوئی واضح ٹائم فریم نہیں دیا گیا، فلسطینی پولیس فورس کو محدود کردار تک رکھا گیا ہے، جریدے کا کہنا ہے کہ غزہ میں 80 فی صد سے زائد تباہی ہے، اور فوری تعمیر نو کی اشد ضرورت ہے، دوسری طرف معصوم فلسطینیوں کے لیے امداد کی ترسیل میں اسرائیل کی جانب سے رکاوٹیں برقرار ہیں، اور 20 لاکھ سے زائد فلسطینی ریڈ زون میں بے گھر اور بنیادی سہولتوں سے محروم پڑے ہوئے ہیں۔