مودی حکومت نے روس سے تیل خریدنا بند کر کے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے: کانگریس

Wait 5 sec.

نئی دہلی: کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت امریکہ کے دباؤ میں آ کر روس سے سستا تیل خریدنے سے پیچھے ہٹ رہی ہے، جو ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہے۔ پارٹی نے کہا کہ امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالنا نہ تو ’اچھے دنوں‘ کی علامت ہے اور نہ ہی یہ کسی خودمختار قوم کی خارجہ پالیسی سے میل کھاتا ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے جمعہ کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سلسلہ وار پوسٹس میں اس معاملے کو اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس وقت پاکستان کو تیل فراہم کر رہا ہے اور دوسری طرف ہندوستان کو اپنے روایتی اتحادی روس سے تیل خریدنے سے روک رہا ہے۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا، ’’مودی حکومت کے اچھے دن اگر آئے ہیں تو وہ ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے آئے ہیں۔‘‘پون کھیڑا نے دعویٰ کیا، ’’مودی امریکہ کے کہنے پر روس سے تیل خریدنا بند کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ خود ہندوستان کے دشمن ملک پاکستان کے ساتھ تیل کا معاہدہ کر چکا ہے۔ پاکستان پر صرف 19 فیصد ٹیرف عائد ہے، جبکہ ہندوستان پر اب بھی 25 فیصد ٹیرف اور غیر اعلانیہ اقتصادی جرمانے لاگو ہیں۔‘‘کانگریس رہنما نے مزید کہا کہ روس، جو برسوں سے ہندوستان کا قریبی اتحادی رہا ہے، اب مایوس ہو کر پاکستان کے ساتھ اہم منصوبے شروع کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’روس اب پاکستان کے ساتھ ایک بڑی ریلوے لائن پر کام کر رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان نے اپنے دیرینہ شراکت دار کو کس طرح ناراض کیا ہے۔‘‘انہوں نے حکومت پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ ملک کی خودمختاری اور اسٹریٹجک مفادات کو قربان کر کے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پون کھیڑا نے کہا، ’’یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے جہاں دشمن ملک کو رعایتیں دی جا رہی ہیں اور اپنے مفادات قربان کیے جا رہے ہیں؟‘‘کانگریس لیڈر نے اپنی بات کا اختتام ایک طنزیہ جملے سے کیا، ’’عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہے اور احمق کے لیے تو بینائی بھی کافی نہیں۔‘‘کانگریس نے حکومت سے سوال کیا کہ اگر پاکستان کو امریکہ سے رعایتیں مل سکتی ہیں، تو ہندوستان کیوں پیچھے ہے؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت واضح کرے کہ اس نے روس سے تیل کی خریداری کیوں روکی اور کیا یہ فیصلہ ملک کے اقتصادی مفاد میں ہے یا کسی دباؤ کا نتیجہ؟پارٹی نے حکومت کی شفافیت اور خارجہ پالیسی کی سمت پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ ہندوستان کو اپنے مفاد میں آزادانہ فیصلے لینے چاہئیں، نہ کہ کسی طاقتور ملک کے کہنے پر۔