لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی نے پہلگام حملہ کو انتہائی ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جو کچھ ہوا وہ غلط ہوا۔ سبھی نے اس کی مذمت کی۔ ہم چٹان کی طرح منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے رہے۔‘‘ اس حملہ کے بعد ہندوستانی فوج کے ’آپریشن سندور‘ سے متعلق انھوں نے کہا کہ پاکستان کے ڈیفنس پر حملہ نہ کرنا غلطی تھی۔ پی ایم مودی کو چاہیے تھا کہ وہ فوج کو پوری چھوٹ دیتے، لیکن فوج کے ہاتھ باندھ دیے گئے تھے۔ ساتھ ہی راہل گاندھی نے کہا کہ پی ایم مودی اپنی شبیہ چمکانے کے لیے سیکورٹی فورسز کا استعمال کرتے ہیں۔اپنی تقریر کے دوران راہل گاندھی نے کہا کہ ’’ہم پہلگام حملہ کے بعد نروال صاحب کے گھر گئے، ان کا بیٹا بحریہ میں تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ انھوں نے مجھے اپنی فیملی کے بارے میں بتایا۔ ان سے 2 گھنٹے بات ہوئی۔ بہن نے کہا کہ میں دروازے کی طرف دیکھتی ہوں، لیکن میرا بھائی اب کبھی نہیں آئے گا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’یوپی میں بھی متاثرہ کنبہ سے ملاقات کی۔ کشمیر میں بھی متاثرہ کنبہ سے ملا۔ ہم سیاسی کام سے لوگوں سے ملاقات کرتے رہتے ہیں۔‘‘ فوجی جوانوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’جب بھی میں فوج کے کسی شخص سے ہاتھ ملاتا ہوں تو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فوج کا آدمی ہے، یہ ٹائیگر ہے۔ ٹائیگر کو آزادی دینی پڑتی ہے۔ اسے باندھ نہیں سکتے ہیں۔‘‘راہل گاندھی نے فوج کے استعمال کے لیے سیاسی عزائم کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’سیاسی عزائم کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوج کے استعمال کے لیے سیاسی عزائم ضروری ہیں۔ جنرل سیم مانک شا نے 1971 میں اندرا گاندھی سے کہا تھا کہ میں گرمی میں آپریشن نہیں کر سکتا۔ اس پر اندرا گاندھی نے ان سے کہا کہ آپ کو جتنا وقت چاہیے لیجیے۔ آپ کو فریڈم آف ایکشن ہونا چاہیے۔ پھر جب کارروائی ہوئی تو ایک لاکھ پاکستانی فوجیوں نے سرینڈر کیا تھا اور ایک نیا ملک بنا تھا۔‘‘ پھر وہ ’آپریشن سندور‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’آپریشن سندور کے وقت ہماری سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ہم پاکستان کو بتا رہے ہیں کہ ہم آپ کے ملٹری سسٹم پر حملہ نہیں کریں گے۔ حکومت ہند نے یہاں غلطی کی ہے۔ حکومت ہند کے عزائم میں کمی دیکھنے کو ملی۔ پاکستان کے ڈیفنس پر حملہ نہ کرنا غلطی تھی، ہمارے کچھ طیارے بھی گرے۔ حکومت نے فوج کو حملے کی پوری چھوٹ نہیں دی۔‘‘