ہریانہ: جنسی ہراسانی معاملہ میں ملزم بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے بیٹےکو اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عہدہ سے ہٹایا گیا

Wait 5 sec.

بی جے پی کی حکمرانی والی ہریانہ کی نائب سنگھ سینی حکومت نے بی جی پی کے راجیہ سبھا رکن سبھاش برالا کے بیٹے وکاس برالا کے خلاف سخت فیصلہ لیا ہے۔ حکومت نے انہیں تقرری کے 10 روز بعد ہی اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل (اے اے جی) کے عہدہ سے ہٹا دیا ہے۔ دراصل وکاس برالا پر جنسی ہراسانی کا الزام تھا، اس لیے ان کی تقرری کے بعد سے ہی یہ معاملہ تنازعات میں گھرا ہوا تھا۔واضح ہو کہ 18 جولائی کو ریاست کے گورنر بنڈارو دتاتریہ نے 97 نئے لاء آفیسرز کی تقرری کو منظوری دی تھی۔ اس فہرست میں وکاس برالا کا بھی نام تھا۔ انہیں اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل (اے اے جی) بنایا گیا تھا۔ ان کی تقرری کے بعد سے ہی اپوزیشن مسلسل سینی حکومت پر حملہ آور تھی اور جنسی ہراسانی کے ایک ملزم کو لاء افسر بنانے پر حکومت کو ہدف تنقید بنا رہی تھی۔دراصل وکاس ایک انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) افسر کی بیٹی کو ہراساں کرنے کے ملزم ہیں۔ یہ معاملہ اکتوبر 2017 کا ہے، جب ان کے والد بی جے پی ہریانہ یونٹ کے سربراہ تھے۔ وکاس اور ان کے دوست آشیش کمار پر چنڈی گڑھ کی ایک عدالت نے ایک سینئر آئی اے ایس آفیسر کی بیٹی کا پیچھا کرنے اور اس کے اغوا کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا۔ وکاس برالا اس معاملے میں ضمانت پر باہر ہیں اور مقدمہ ابھی عدالت میں زیر التوا ہے۔ آئی اے ایس آفیسر کی متاثرہ بیٹی ورنیکا کُنڈو نے وکاس برالا کو اے اے جی بنائے جانے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ یہی نہیں 45 آئی اے ایس افسران نے بھی نائب سنگھ سینی کو خط لکھ کر اس کی تقرری کو رد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ معاملہ بڑھنے پر حکومت نے وکاس برالا کو ہٹانے کا فیصلہ لیا ہے۔وکاس برالا اور آشیش کمار کے خلاف لڑکی کا پیچھا کرنے، جبراً راستہ روکنے اور چھیڑ چھاڑ جیسی سنگین دفعات لگائی گئیں تھیں۔ ملزمان کے خلاف 354 ڈی (پیچھا کرنے)، 341 (غلط طریقے سے روکنے) اور 365، 511 (اغوا کی کوشش) سمیت انڈین پینل کوڈ (آئی پی س) کی مختلف دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ انہیں 5-4 اگست 2017 کی رات کو گرفتار کیے جانے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں 9 اگست 2017 کو دوبارہ گرفتار کیا گیا، لیکن جنوری 2018 میں انہیں ہائی کورٹ سے دوبارہ ضمانت مل گئی۔متاثرہ ورنیکا کُنڈو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا تھا کہ ’’یہ فیصلہ حکومت کے بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ جیسے نعروں کے برعکس ہے اور اس سے معاشرے میں غلط پیغام جاتا ہے۔ کسی کو بھی عوامی عہدہ پر تقرر کرنا صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ معاشرے کی اقدار اور اخلاقی معیارات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے آگے لکھا کہ وہ جس معاملہ پر بات کر رہی ہیں وہ ان کا خود کا ہے، جو کئی ماہ تک قومی میڈیا میں سرخیوں میں رہا، لیکن کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ 5 سال بعد بھی معاملہ وہیں پر اٹکا ہوا ہے۔ فیصلہ آنے تک آئین پر ان کو بھروسہ ہے، لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وقت کے ساتھ ان کا یقین متزلزل ہوا ہے۔ اب بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا ہے۔