کل 20 جولائی کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے ایک دن پہلے ، نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے سیاسی جماعتوں کے درمیان بامعنی اور سنجیدہ بات چیت کے لیے خوشگوار ماحول پر زور دیا اور اراکین پارلیمنٹ سے نامناسب الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنے کی اپیل کی۔راجیہ سبھا کے چیرمین اور نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے نئی دہلی میں راجیہ سبھا کے انٹرنز کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے ٹیلی ویژن کے مباحثوں میں گرما گرم تبادلوں کا حوالہ دیا اور کہا، "ہم ایسی چیزوں سے تنگ آچکے ہیں۔" انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے دلوں میں تلخی کیسے ہو سکتی ہے، سیاست کے میدان میں تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کا احترام کریں، براہ کرم ٹیلی ویژن پر یا کسی پارٹی کی قیادت کے خلاف گالی گلوچ نہ کریں، یہ ہماری تہذیب نہیں ہے۔آج یعنی21 جولائی کو شروع ہونے والے مانسون اجلاس میں بامعنی بات چیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، دھنکھڑ نے کہا، "اگر ہم اپنے نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ میں صحیح ہوں، اور دوسرے ہمیشہ غلط ہوتے ہیں - یہ جمہوریت نہیں ہے۔ یہ ہماری ثقافت نہیں ہے، یہ انا ہے۔ ہمیں اپنی انا پر قابو رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا نقطہ نظر دوسرے شخص کے نقطہ نظر کو ماننے کے لیے کیوں مختلف ہے۔ ہمیں دوسرے کے نقطہ نظر کا بھی احترام کرنا ہوگا لہذا میں سیاسی جماعتوں سے تعمیری سیاست میں حصہ لینے کی اپیل کرتا ہوں۔انہوں نے کہا، "ہندوستان ،تاریخی طور پر بات چیت، مکالموں، مباحثوں اور غور و خوض کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ان دنوں پارلیمنٹ میں نظر نہیں آ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والا اجلاس اہم ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ بامقصد بات چیت، سنجیدہ غور و خوض ہو گا، جو ہندوستان کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ ہمیشہ بہتری کی گنجائش ہے۔" انہوں نے کہا کہ "اگر کسی چیز کو بہتر کرنے کی تجویز ہے تو یہ مذمت نہیں ہے، یہ تنقید نہیں ہے، یہ صرف مزید ترقی کے لیے ایک تجویز ہے۔ اس لیے میں سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تعمیری سیاست میں حصہ لیں۔انہوں نے کہا کہ وہ تمام جماعتوں، اقتدار میں موجود جماعتوں اور دوسری طرف کی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ لچکداررہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں سیاستدانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ذاتی حملوں سے گریز کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سیاست دانوں کو گالی دینا بند کریں۔ جب مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ دوسری سیاسی جماعتوں کے سینئر لیڈروں کو گالی دیتے ہیں تو اس سے ہماری ثقافت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہمیں وقار اور باہمی احترام کا پورا احساس ہونا چاہئے اور یہی ہماری ثقافت کا تقاضا ہے۔ ورنہ ہمارے فکری عمل میں اتحاد نہیں ہو سکتا۔‘‘