سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: جہیز ہراسانی کے مقدمات پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے رہنما اصول ملک بھر میں ہوں گے نافذ

Wait 5 sec.

آئی پی سی کی دفعہ 498 اے، جو شادی شدہ خاتون کو جہیز ہراسانی سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے، اس کا کئی مرتبہ غلط استعمال بھی دیکھا گیا ہے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ 2022 میں جاری کیے گئے رہنما اصول کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے ان رہنما اصول کو ازدواجی معاملات میں جھوٹے الزامات کو روکنے اور بے قصور لوگوں کو تحفظ دینے کی سمت میں ایک اہم پہلو مانا ہے۔ سی جے آئی بی۔ آر۔ گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے صاف طور پر کہا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے رہنما اصول ملک بھر میں موثر رہیں گے اور متعلقہ افسران ان پر عمل آوری کو یقینی بنائیں۔سپریم کورٹ نے 498 اے کے معاملوں میں دو مہینے تک گرفتاری نہ کرنے اور فیملی ویلفیئر کمیٹیوں کی تشکیل کے ہائی کورٹ کے رہنما اصول کی حمایت کی ہے۔ بنچ نے کہا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذرریعہ 2022 کے فیصلے میں پیرا 32 سے 38 کے مطابق ’’تعزیرات ہند کی دفعہ 498 اے کے غلط استعمال سے متعلق تحفظاتی اقدامات کے لیے فیملی ویلفیئر کمیٹیوں کی تشکیل کے سلسلے میں تیار رہنما اصول موثر رہیں گے اور متعلقہ حکام کے ذریعہ اس کا نفاذ کیا جائے گا۔‘‘دراصل الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے 13 جون 2022 کے فیصلے میں کہا تھا کہ جہیز ہراسانی کے معاملوں میں شوہر اور ان کے اہل خانہ کے خلاف اکثر جھوٹے اور مبالغہ آمیز الزامات لگائے جاتے ہیں۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایسے معاملوں میں گرفتاری سے پہلے منـصفانہ جانچ اور آپسی صلح کی کوشش ضروری ہے۔ اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے عدالت نے تفصیلی رہنما اصول بنائے تھے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے رہنما اصول تھے:- ایف آئی آر یا شکایت درج ہونے کے بعد ’کولنگ پیریڈ‘ (جو ایف آئی آر یا شکایت درج ہونے کے دو مہینے بعد ہے) ختم ہوئے بغیر، نامزد ملزمین کی گرفتاری یا انہیں پکڑنے کے لیے پولیس کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس ’کولنگ پیریڈ‘ کے دوران معاملہ ہر ضلع میں فوراً فیملی ویلفیئر کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔- صرف وہ معاملے فیملی ویلفیئر کمیٹی کو بھیجے جائیں گے جن میں دفعہ 498 اے، دیگر دفعات کے ساتھ ساتھ جیل کی سزا 10 سال سے کم ہو۔- شکایت یا ایف آئی آر درج ہونے کے بعد دو مہینے کا ’کولنگ پیریڈ‘ ختم ہوئے بغیر کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔ اس کولنگ پیریڈ کے دوران معاملے کو ہر ضلع میں ویلفیئر کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔- ہر ضلع میں کم سے کم ایک یا ایک سے زیادہ فیملی ویلفیئر کمیٹی ہوگی، جس میں کم سے کم تین رکن ہوں گے۔ اس کی تشکیل اور کاموں کا جائزہ اس ضلع کے ضلع اور سیشن جج/چیف جسٹس، فیملی کورٹ کے ذریعہ وقت وقت پر کی جائے گی، جو لیگل سروسز اتھاریٹی میں اس ضلع کے چیئرمین یا شریک چیئرمین ہوں گے۔- مذکورہ فیملی ویلفیئر کمیٹی میں شامل ہوں گے- نوجوان وکیل یا ثالث، لاء کالج کے آخری سال کے طلبا، کوئی معزز سماجی کارکن، سبکدوش جوڈیشیل افسر، سینئر انتظامی یا عدالتی افسروں کی تعلیم یافتہ بیویاں۔- فیملی ویلفیئر کمیٹی کے رکن کو کبھی بھی گواہ کے طور پر نہیں بلایا جائے گا۔- دفعہ 498 اے اور مذکورہ بالا کسی دوسرے متعلقہ دفعات کے تحت ہر شکایت یا درخواست، متعلقہ مجسٹریٹ کے ذریعہ فوراً فیملی ویلفیئر کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔ 8۔ کمیٹی مناسب غور و خوض کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرے گی اور معاملے سے متعلق سبھی حقائق کے پہلوؤں اور اپنی رائے کو شامل کرتے ہوئے دو مہینے کی مدت ختم ہونے کے بعد متعلقہ مجسٹریٹ/پولیس افسروں کو، جن کے سامنے ایسی شکایت درج کی جا رہی ہیں، بھیجے گی۔- پولیس افسر، نامزد ملزمین کے خلاف درخواستوں یا شکایتوں کی بنیاد پر کسی بھی گرفتاری یا کسی بھی تعزیری کارروائی سے بچنے کے لیے کمیٹی کے سامنے غور و خوض جاری رکھیں گے۔ حالانکہ جانچ افسر معاملے کی پیریفرل جانچ جاری رکھیں گے، جیسے کہ میڈیکل رپورٹ، چوٹ رپورٹ اور گواہوں کے بیان تیار کرنا۔- کمیٹی کے ذریعہ دی گئی رپورٹ، خوبی-خامی کی بنیاد پر، جانچ افسر یا مجسٹریٹ کے زیر غور ہوگی اور اس کے بعد دو مہینے کے ’کولنگ پیریڈ‘ ختم ہونے کے بعد ضابطہ فوجداری کی دفعات کے مطابق ان کے ذریعہ مناسب کارروائی کی جائے گی۔11۔ لیگل سروسز ایڈ کمیٹی، فیملی ویلفیئر کمیٹی کے اراکین کو وقت وقت پر ضروری سمجھے جانے پر بنیادی تربیت فراہم کرے گی۔- چونکہ یہ سماج میں موجود ان تلخیوں کو دور کرنے کا ایک نیک کام ہے جہاں فریقین کے جذبات شدید ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے درمیان گرما گرمی کو کم کر سکیں اور ان کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں، چونکہ یہ کام بڑے پیمانے پر عوام کے لیے ہے، سماجی کام ہے اس لیے وہ ہر ضلع کے ضلع اور سیشن جج کے ذریعہ مقرر کردہ کم سے کم اعزازیہ یا مفت کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔- دفعہ 498 اے اور دیگر متعلقہ دفعات سے متعلق ایسی ایف آئی آر یا شکایتوں کی جانچ، متحرک جانچ افسروں کے ذریعہ کی جائے گی، جن کی وفاداری، ایسے ازدواجی معاملوں کو پوری ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ سنبھالنے اور جانچ کرنے کے لیے کم سے کم ایک ہفتہ کے لیے خصوصی تربیت کے بعد تصدیق شدہ ہو۔- جب فریقین کے درمیان سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو ضلع اور سیشن جج اور ان کے ذریعہ ضلع میں نامزد دیگر جوڈیشیل افسر فوجداری معاملے کو بند کرنے سمیت کارروائی کا نپٹارہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔قابل ذکر ہے کہ آئی پی سی کی یہ دفعہ اب بی این ایس 2023 کی دفعہ 85 بن چکی ہے، جو یکم جولائی 2024 سے نافذ ہو چکی ہے۔دراصل چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے اس ازدواجی معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے ہائی کورٹ کے رہنما اصول کی حمایت کی ہے جس میں بیوی اور اس کے کنبہ نے شوہر اور کے کنبہ کے خلاف جھوٹے معاملے درج کرائے تھے، جس کی وجہ سے شوہر اور اس کے والد کو جیل کی سزا ہوئی تھی۔