نئی دہلی: پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے قبل حکومت نے اتوار کے روز کل جماعتی میٹنگ میں اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے تمام اہم مسائل پر بحث کی یقین دہانی کرائی۔ پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے میٹنگ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ’آپریشن سندور‘، پہلگام حملہ، بہار میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دعووں سمیت ہر موضوع پر ضابطے اور پارلیمانی روایات کے مطابق بحث کے لیے تیار ہے۔رجیجو نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر تال میل ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ کی کارروائی بغیر کسی رکاوٹ کے چل سکے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں تمام موضوعات پر بامعنی بحث ہو اور حکومت اس کے لیے پوری طرح تیار ہے۔‘‘کل جماعتی میٹنگ میں حزب اختلاف نے کئی اہم مسائل اٹھائے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی نے کہا، ’’اس اجلاس میں ہم پہلگام دہشت گردانہ حملے، سرحدی تنازع، ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں اور ’آپریشن سندور‘ پر ٹرمپ کے بیان جیسے موضوعات اٹھائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم ان پر پارلیمنٹ میں جواب دیں گے۔‘‘سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر رام گوپال یادو نے میٹنگ میں انٹیلی جنس کی ناکامی، امریکی صدر کے دعووں اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کسی بڑے ملک نے ’آپریشن سندور‘ کے دوران ہندوستان کی کھل کر حمایت نہیں کی، جو خارجہ محاذ پر ناکامی کی علامت ہے۔عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ نے میٹنگ میں امریکی صدر ٹرمپ کے ان الزامات پر جواب مانگا، جن میں 5 لڑاکا طیارے مار گرانے کی بات کہی گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہار میں بلڈوزر کارروائی اور احمد آباد طیارہ حادثے میں پائلٹوں کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی تشویش ناک ہے۔اے آئی اے ڈی ایم کے کے ایم تھمبی دورائی نے کہا کہ تقریباً تمام پارٹیوں کے لیڈران کا مشترکہ مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم مودی کو ’آپریشن سندور‘ پر پارلیمنٹ میں وضاحت دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں ووٹر لسٹ کے تنازعہ پر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی۔بیجو جنتا دل کے سسمیت پاترا نے اڈیشہ میں امن و قانون کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ریاستی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں زور و شور سے اٹھائے گی۔ تلگو دیشم پارٹی کے سری کرشنا دیورائیلو نے کہا کہ 21 دنوں کے اس اجلاس کے دوران تمام پارٹیوں کو پارلیمنٹ کے وقت کا مؤثر استعمال کرنا چاہیے اور اہم قومی معاملات پر اجتماعی غور و فکر ہونا چاہیے۔حکومت نے جہاں ایک طرف اپوزیشن کے مطالبات کو سننے کا عندیہ دیا، وہیں دوسری جانب اپوزیشن نے واضح کر دیا کہ وہ اس سیشن میں حکومت کو سخت سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔ اب نگاہیں مانسون اجلاس کے پہلے دن پر مرکوز ہیں، جہاں یہ واضح ہوگا کہ حکومت بحث کے وعدے پر کس حد تک عمل کرتی ہے۔