سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل سمیت دنیا کو حیران کردینے والے طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ پر مسلط اسرائیلی جنگ کو 2 سال کا عرصہ بیت گیا۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی نسل کشی میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے جبکہ 1 لاکھ 70 ہزار کے قریب زخمی ہیں۔رپورٹس کے مطابق اسرائیل اعداد وشمار کے مطابق اب تک اس کے 1152 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی سے بیس لاکھ افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں غزہ کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے، اسپتال، مساجد، گرجا گھر، اسکول کالجز اور تعلیمی اداروں سمیت کچھ سلامت نہیں رہا۔رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے سویلین انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے جس سے لاکھوں شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔علاوہ ازیں اسرائیل نے وحشی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران، قطر، لبنان، شام اور یمن کو بھی نشانہ بنایا، جنگ اور تمام تر کوششوں کے باوجود اسرائیل حماس کی قید سے 48 قیدی رہا نہیں کرا سکا جس میں سے 20 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔رپورٹس کے مطابق حماس کے اکتوبر 2023 کے حملے میں اسرائیلیوں سمیت 1 ہزار 219 افراد مارے گئے تھے۔ دو سو اکیاون اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیوٹ نے کہا ہے کہ غزہ کے معاملے پر تمام فریقین رضامند ہیں، غزہ میں امن قائم کرنے کیلئے پُرعزم ہیں۔وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان کیرولائن لیوٹ نے کہا کہ غزہ امن معاہدے پر عملدرآمد کیلئے فریم ورک پر بات ہورہی ہے، یقینی بنانا ہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کو خطرات باقی نہ رہیں۔کیا ٹرمپ انتظامیہ امن معاہدے کے بعد فلسطین کو ریاست کی حیثیت سے تسلیم کریگی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا کہ معاہدے سے آگے آنے والے حالات پر ابھی تبصرہ نہیں کروں گی۔اسرائیلی قید سے رہا ہونیوالی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے کیا انکشاف کیا؟ترجمان وائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ غزہ امن معاہدے پر عملدرآمد کرانے پر ابھی توجہ مرکوز ہے، غزہ سے متعلق ٹیکنوریٹ پر مشتمل گورننگ باڈی کے ناموں کو حتمی شکل نہیں دی گئی۔انھوں نے کہا کہ ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں، یرغمالیوں کی رہائی اولین ترجیح ہے، غزہ منصوبے پر تکنیکی سطح کی بات چیت جاری ہے۔