نئی دہلی: صدرِ جمہوریہ دروپدی مرمو کی جانب سے بھیجے گئے اہم آئینی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بیچ آج فیصلہ سنائے گی۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ یہ گورنر اور صدر کے اختیارات کی آئینی حدود، ریاستی بلوں پر کارروائی کی مدت اور مرکز و ریاستوں کے تعلقات پر براہِ راست اثر ڈالے گا۔ چیف جسٹس بی آر گوئی کی سربراہی میں قائم اس بنچ میں جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس اتل ایس چاندورکر شامل ہیں جنہوں نے دس روز تک مسلسل دلائل سننے کے بعد 11 ستمبر کو فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔صدر نے یہ ریفرنس اس پس منظر میں بھیجا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں گورنر اور صدر کو ریاستی بلوں پر کارروائی کے لیے تین ماہ کی زیادہ سے زیادہ مدت مقرر کی تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ گورنر دوبارہ پارلیمان یا ریاستی اسمبلی سے منظور شدہ بل پر ایک ماہ کے اندر فیصلہ دینے کے پابند ہوں گے۔ اس فیصلے کے بعد صدر مرمو نے آئینی تشویش ظاہر کی اور سپریم کورٹ سے وضاحت طلب کی کہ آیا عدالت آئین میں موجود خاموشی کو بنیاد بنا کر گورنر یا صدر کے لیے مدت طے کر سکتی ہے یا نہیں۔ صدر کا کہنا تھا کہ یہ ہدایت آئینی اختیارات اور وفاقی ڈھانچے کی بنیادی روح سے متعلق حساس سوالات کو جنم دیتی ہے۔ریفرنس میں اٹھائے گئے 14 اہم سوالات میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا گورنر آرٹیکل 200 کے تحت ریاستی بلوں پر فیصلے کے لیے اپنے صوابدیدی اختیار کو غیر معینہ مدت تک استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی شامل ہے کہ آیا گورنر وزارتی کونسل کی تجویز کے پابند ہیں یا وہ اپنے فیصلے میں آزادانہ اختیار رکھتے ہیں۔صدر جمہوریہ نے سپریم کورٹ سے گورنر اور صدر کے آئینی اختیارات پر پوچھے 14 سوالاتایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا گورنر کے فیصلے عدالتی نظرثانی کے دائرے میں آتے ہیں یا آئین کا آرٹیکل 361 انہیں مکمل طور پر عدالتوں کی جانچ سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ جب آئین میں وقت کی حد موجود نہیں تو کیا سپریم کورٹ اپنی تشریح کے ذریعے ایسی حد مقرر کر سکتی ہے۔مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے سولیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ کو گورنر یا صدر کے لیے مدت طے کرنے کا آئینی اختیار نہیں، تاہم انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ گورنر ریاستی بلوں پر غیر ضروری تاخیر کے مجاز نہیں۔ مرکز کا زور اس بات پر رہا کہ عدالت آئین نویسی کے دائرے میں قدم نہ رکھے اور صرف تشریح تک محدود رہے۔آئین صدر جمہوریہ اور گورنر کو کسی بھی بل کو روکنے کا اختیار نہیں دیتا، سپریم کورٹ میں چار ریاستوں کی اہم دلیلیںدوسری جانب تمل ناڈو، کیرالہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں نے سپریم کورٹ کے 8 اپریل کے فیصلے کی حمایت کی۔ ریاستوں کا کہنا ہے کہ گورنر کی جانب سے بلوں پر تاخیر منتخب حکومتوں کے اختیارات میں مداخلت ہے اور اس سے وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچتا ہے۔ ریاستوں نے مؤقف اختیار کیا کہ جب گورنر اپنی آئینی ذمہ داری کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں تو عوامی مفاد اور قانون سازی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔اب سب کی نظریں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مرکوز ہیں جو یہ طے کرے گا کہ عدالت گورنر اور صدر کے لیے فیصلہ دینے کی مدت مقرر کر سکتی ہے یا نہیں اور یہ بھی کہ گورنر کے فیصلے کس حد تک عدالتی نظرثانی کے دائرے میں آئیں گے۔ یہ فیصلہ مستقبل میں مرکز اور ریاستوں کے تعلقات، گورنر کے کردار اور قانون سازی کے عمل کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔