چنڈی گڑھ کو آئین کے آرٹیکل 240 کے دائرے میں لانے کی خبر سامنے آتے ہی سیاسی ماحول میں شدید ردعمل دیکھا گیا اور اس پورے معاملے میں عام آدمی پارٹی نے مرکزی حکومت پر سب سے سخت تنقید کی۔ پارٹی نے کہا کہ یہ سوچ نہ صرف پنجاب کے تاریخی رشتے کو کمزور کرتی ہے بلکہ اس میں شفافیت کا بھی فقدان ہے۔ عام آدمی پارٹی کے مطابق اگر یہ تجویز عملی شکل اختیار کرتی تو چنڈی گڑھ کا انتظام ایک ایسے نظام کے تحت آ جاتا جو پنجاب کے اثر اور تاریخی وابستگی سے باہر ہوتا۔وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ چنڈی گڑھ پنجاب کا حصہ ہے اور اس کے مستقبل سے متعلق کوئی بھی فیصلہ بنا مشاورت ناقابل قبول ہوگا۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے جذبات اور قانونی حیثیت کو نظر انداز کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔اروند کیجریوال نے بھی سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مرکز اس مسئلے پر غیر ضروری خاموشی اختیار کر کے ریاستی حقوق کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر اس طرح کا کوئی قدم لیا گیا تو شدید عوامی ردعمل سامنے آئے گا۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان وکرم جیت سنگھ سہانی نے کہا کہ تمام پنجابی اراکین کو متحد ہو کر وزیر داخلہ سے ملاقات کرنی چاہیے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ پنجاب اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔سیاسی حلقوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کانگریس کے راجہ وڑنگ اور اکالی دل کے سربراہ سکھبیر بادل نے بھی اپنے اپنے بیانات دیے۔ معاملہ اس وقت مزید ابھرا جب پارلیمنٹ کے بلیٹن میں آئین کے 131 ترمیمی بل کا حوالہ سامنے آیا جس میں چنڈی گڑھ کو آرٹیکل دو سو چالیس میں لانے کا ذکر تھا۔اس آرٹیکل کے تحت صدر کو مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لیے براہ راست قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے اور یہی پہلو عام آدمی پارٹی کے مطابق اصل تشویش کا سبب بنا۔ تاہم سیاسی شور بڑھنے کے بعد مرکزی حکومت کے وزارت داخلہ نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ حکومت چنڈی گڑھ سے متعلق قوانین سازی کے عمل کو آسان بنانے پر غور ضرور کر رہی ہے لیکن ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی سرمائی اجلاس میں کوئی بل لانے کا ارادہ ہے۔وزارت نے یہ بھی کہا کہ چنڈی گڑھ کی موجودہ انتظامی حیثیت برقرار رہے گی اور پنجاب اور ہریانہ کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ اس وضاحت کے باوجود عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ جب تک اس تجویز کو مکمل طور پر واپس لینے کا اعلان نہیں ہوتا خدشات باقی رہیں گے اور پارٹی اس موضوع پر اپنی آواز بلند کرتی رہے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ معاملہ قانونی کے ساتھ جذباتی پہلو بھی رکھتا ہے اور اسی لیے اس بحث کا سلسلہ مزید آگے بڑھنے کا امکان موجود ہے۔