بہار انتخابات کے غیر فطری نتائج؛ ووٹر فہرست، نقد اسکیموں اور کارپوریٹ اثرات کے خطرناک مضمرات

Wait 5 sec.

بہار کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ملک کی سیاسی فضا میں ایک غیر معمولی بحث کو جنم دیا ہے۔ عام توقعات اور تقریباً تمام ایگزٹ پولز کے اندازوں کے برعکس سامنے آنے والے اس نتیجے نے سیاسی تجزیہ کاروں، حقوقِ رائے دہی کے ماہرین اور جمہوری عمل پر نظر رکھنے والوں کو حیرت اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ نتیجہ انتخابی عمل کے بنیادی ڈھانچے میں ایسی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے جن کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔یہ صورتحال ایک حد تک 2010 کے یادگار انتخابی نتائج کی یاد دلاتی ہے جب اُس وقت کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے اتحاد نے اسمبلی میں 206 نشستیں حاصل کر لی تھیں اور آر جے ڈی محض 22 نشستوں تک محدود ہو گئی تھی۔ مگر وہ ایک بالکل مختلف سیاسی ماحول کا دور تھا—اس وقت نہ مودی عہد کا عروج تھا اور نہ مرکز اور ریاست میں اس قدر یک طرفہ طاقت کا توازن۔ دوسری طرف 2020 کے انتخابات میں حکومت معمولی فرق سے بچی تھی اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اپنا عددی اکثریتی مقام کھونا پڑا تھا۔ ایسے حالات میں 2025 کے بہار انتخابات کا نتیجہ فطری سیاسی رخ کے خلاف جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو غیر معمولی عوامل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔انتخابی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے دو بڑے حکومتی اقدامات خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔ پہلا، ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی یعنی ایس آئی آر مہم۔ اس کے نتیجے میں تقریباً 69 لاکھ نام حذف کیے گئے جبکہ 25 لاکھ سے زائد نئے نام شامل کیے گئے۔ حیران کن طور پر ایس آئی آر کے مکمل ہونے اور انتخابی اعلان کے بعد بھی تین لاکھ سے زیادہ ووٹروں کا اضافہ ہوا، جس نے انتخابی توازن کو مزید بدل ڈالا۔ بیشتر حلقوں میں ہونے والی یہ تبدیلیاں 2020 میں اپوزیشن کی برتری سے کہیں زیادہ تھیں اور ان کا اثر محدود حلقوں تک نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر محسوس کیا گیا۔ووٹر فہرست میں تبدیلیوں نے صرف رائے دہی پر اثر نہیں ڈالا بلکہ شہری حقوق، فوائد اور شناخت کے حوالے سے خوف اور بے یقینی کو بھی بڑھایا۔ اس بار بہار نے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹنگ فیصد ریکارڈ کیا، جس میں باہر رہنے والے مخصوص حمایتی ووٹروں کی منظم منتقلی اور خصوصی ٹرینوں کی فراہمی جیسے اقدامات نے اہم کردار ادا کیا۔ انتظامیہ کی جانب سے کھلے جانبدارانہ رویے اور منظم انداز میں ہونے والی حکومت نواز ووٹنگ کی اجازت نے انتخابی شفافیت پر مزید سوالات اٹھا دیے۔دوسرا اہم پہلو انتخابی مہم کے دوران اور اس سے پہلے بڑی سطح پر نقد اسکیموں اور براہِ راست مالی مراعات کا اعلان اور تقسیم ہے۔ بڑھتے عوامی غصے کو کم کرنے کے لیے تین بڑے اقدامات سامنے لائے گئے: بزرگ اور معذوری پنشن کو 400 سے بڑھا کر 1100 روپے ماہانہ کرنا، 125 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنا اور سب سے نمایاں 1.5 کروڑ خواتین کو 10 ہزار روپے کی یک مشت ادائیگی۔ یہ اقدام صرف انتخابی فائدے کے لیے تھا یا سماجی بہبود کے لیے یہ سوال اب بھی معلق ہے، مگر اس کے سیاسی اثرات نمایاں ہیں۔نام نہاد ’مکھیہ منتری مہیلا روزگار اسکیم‘ کا آغاز بھی انتخابی شیڈول سے کچھ روز قبل ہوا اور اس کے تحت رقوم کی تقسیم انتخابی مدت کے دوران بھی جاری رہی۔ مرکزی وزیر داخلہ نے اسے قرض کے طور پر دی گئی رقم قرار دیا مگر خواتین میں بڑھتے مائیکرو فنانس جبر کے سبب نتیش کمار نے وضاحت کی کہ یہ قرض نہیں بلکہ بلاواپسی رقم ہے۔ اس کے ساتھ ہی 1,80,000 ’جیویکا رضاکاروں‘ کو انتخابی عملے میں شامل کرنے کا انکشاف مزید سوالات پیدا کرتا ہے۔اسی تناظر میں ایک اور معاملہ ’پیر پینتی اڈانی بجلی معاہدہ‘ میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اس معاہدے کے تحت محض ایک روپیہ سالانہ لیز پر 1050 ایکڑ زمین اور مہنگے نرخوں پر بجلی خرید کی ضمانت دی گئی۔ سابق مرکزی وزیر توانائی آر کے سنگھ نے اسے 620 ارب روپے کا گھوٹالہ قرار دے کر سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیا، جس کے فوراً بعد وہ پارٹی سے نکال دیے گئے۔ اس واقعے نے کارپوریٹ مفادات، انتخابی سرمایہ کاری اور سیاسی مراعات کے باہمی رشتے پر سنگین سوالات کھڑے کیے۔اسی پس منظر میں کارپوریٹ سرپرستی میں چلنے والی انتخابی مہم اور تشہیر کے ماڈل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابی ماحول میں غیر معمولی تشہیری سرگرمی، سرمایہ کے بے تحاشہ استعمال اور میڈیا بیانیے پر اثراندازی نے انتخابی منصفانہ توازن کو متاثر کیا ہے۔ایک اور تشویشناک پہلو مسلم نمائندگی میں تاریخی کمی ہے۔ اس بار اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد 19 سے گھٹ کر صرف 11 رہ گئی ہے، جب کہ بی جے پی کے 101 امیدواروں کی فہرست میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں تھا۔ اس کے برخلاف 10.7 فیصد اعلیٰ ذات آبادی سے 49 امیدوار فراہم کیے گئے۔ ساتھ ہی این ڈی اے کے کیمپ میں عام/اعلیٰ ذات کے 69 ارکان دیہی پس منظر رکھنے والے او بی سی ارکان سے زیادہ ہیں، جو سماجی توازن کے رجحان کو تبدیل کرتا ہے۔سی پی آئی (ایم ایل) نے بیس نشستوں پر الیکشن لڑا مگر صرف دو میں کامیابی حاصل کر سکی، اگرچہ کئی نشستوں پر معمولی مارجن سے شکست ہوئی۔ اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ نتائج کا سنجیدہ جائزہ لیا جائے، خامیوں کی نشاندہی کی جائے اور مستقبل کے لیے مؤثر حکمتِ عملیاں تشکیل دی جائیں۔نتیش کمار کی نئی حکومت میں بی جے پی کا اثر پہلے سے کہیں زیادہ گہرا ہوگا اور آر ایس ایس کے نظریاتی ڈھانچے کے مطابق بہار کو ’بلڈوزر تجربہ گاہ‘ بنانے کی پالیسی کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ غیر معمولی اکثریت رکھنے والی حکومتیں اکثر جلد بکھر جاتی ہیں مگر اس بار صورتحال الگ ہے کیونکہ اس کے اثرات بہار سے آگے بڑھ کر آنے والے انتخابات جیسے آسام، مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ اور پھر اتر پردیش تک پہنچنے کا امکان ہے۔یہ نتائج جمہوریت، نمائندگی، انتخابی شفافیت اور ریاستی طاقت کے استعمال کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھاتے ہیں۔ بہار کا یہ انتخاب محض ایک سیاسی موڑ نہیں بلکہ جمہوری ڈھانچے کے مستقبل کا سنجیدہ امتحان ہے۔