نئی دہلی: لال قلعہ کے قریب 10 نومبر کو ہونے والے کار بم دھماکے کی تحقیقات میں اس وقت ایک اہم پیش رفت ہوئی، جب قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے دہلی سے پانپور کے رہائشی عامر رشید علی نامی شخص کو گرفتار کر لیا۔ ایجنسی کے مطابق گرفتار شخص سے دھماکے کے منصوبہ بندی سے جڑے ممکنہ روابط کے سلسلے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔این آئی اے نے دہلی پولیس سے کیس کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کئی مقامات پر تلاشی مہم چلائی، جس کے دوران مختلف افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ اشارے ملے کہ عامر رشید علی نے مبینہ طور پر اس گاڑی کی خریداری میں مدد فراہم کی جس کا استعمال دھماکے میں کیا گیا۔فارنسک جانچ میں یہ تصدیق ہوئی ہے کہ دھماکے کے وقت گاڑی چلانے والا شخص عمرالنبی نامی فرد تھا، جو پلوامہ کا رہائشی اور فریدآباد میں الفلاح یونیورسٹی کے جنرل میڈیسن ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا۔ ایجنسی کے مطابق عمرالنبی کی ہلاکت موقع پر پائی گئی باقیات سے ثابت ہوئی، تاہم دھماکے سے قبل اس کی سرگرمیوں اور روابط کی تفصیل تفتیش کے بعد ہی سامنے آ سکے گی۔این آئی اے نے عمرالنبی سے متعلق ایک دوسری گاڑی بھی برآمد کی ہے، جسے تکنیکی اور فارنسک جانچ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ گاڑی ممکنہ طور پر ان پہلوؤں کی وضاحت میں مدد کر سکتی ہے جن کا تعلق دھماکے کی تیاری یا ملزمان کے آپس کے روابط سے ہے۔تحقیقات کے دوران اب تک 73 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں، جن میں دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔ گواہوں کے بیانات اور ابتدائی تکنیکی شواہد کے ذریعے این آئی اے حملے کی ٹائم لائن اور واقعات کی ترتیب کو جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ایجنسی نے بتایا کہ دہلی پولیس، جموں و کشمیر پولیس، ہریانہ پولیس، یوپی پولیس اور مختلف خفیہ ادارے اس معاملے میں قریبی تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ این آئی اے کے مطابق چونکہ معاملہ بین الریاستی سرگرمیوں اور ممکنہ نیٹ ورک سے جڑا ہو سکتا ہے، اس لیے تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کیا جا رہا ہے۔