نئے لیبر قوانین پر جے رام رمیش کا ردعمل، بنیادی مزدور حقوق سے متعلق 5 اہم سوالات اٹھائے

Wait 5 sec.

نئی دہلی: مرکز کی جانب سے چار لیبر قوانین کے نفاذ کے بعد کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے مودی حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ ان قوانین کو ایک تاریخی اصلاح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ مزدور طبقے کے بنیادی حقوق اور ضروریات کا حل پیش نہیں کرتے۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ پہلے سے موجود 29 لیبر قوانین کو صرف نئی شکل دے کر چار کوڈز میں تبدیل کیا گیا ہے لیکن ان کے قواعد ابھی تک نوٹیفائی بھی نہیں کیے گئے۔جے رام رمیش نے اپنے بیان میں سوال کیا کہ نئے قوانین مزدوروں کے انصاف کی ان پانچ بنیادی مانگوں کو پورا کر پائیں گے یا نہیں اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا ہے، ان کے پیش کردہ پانچ نکات یہ ہیں:- قومی کم از کم مزدوری 400 روپے روزانہ، جس میں منریگا بھی شامل ہو- صحت کا حق قانون، جس کے تحت 25 لاکھ روپے کا یونیورسل ہیلتھ کوریج ملے- شہری علاقوں کے لیے روزگار گارنٹی قانون- تمام غیر منظم کارکنوں کے لیے جامع سماجی تحفظ، بشمول زندگی اور حادثاتی بیمہ- سرکاری محکموں کے بنیادی کاموں میں کنٹریکٹ نظام ختم کرنے کی پالیسیانہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو کرناٹک کی موجودہ حکومت اور سابقہ راجستھان حکومت کے ماڈل سے سیکھنا چاہیے، جنہوں نے گِگ اور پلیٹ فارم ورکروں کے لیے تاریخی قانون سازی کی ہے اور یہ اقدامات نئے لیبر کوڈ نافذ ہونے سے پہلے کیے گئے تھے۔ جے رام رمیش کے مطابق حقیقی اصلاح وہ ہے جو مزدور طبقے کے حالات میں بہتر تبدیلی لائے، نہ کہ صرف قانونی ڈھانچے کی ظاہری ترتیب بدل دے۔سیاسی مبصرین کے مطابق یہ ردِعمل ظاہر کرتا ہے کہ لیبر قوانین اب محض صنعتی مسئلہ نہیں رہے بلکہ قومی سیاسی مکالمے کا حصہ بن چکے ہیں۔ اپوزیشن کے نزدیک یہ معاملہ روزگار کے تحفظ، سماجی بہبود کے ڈھانچے، مزدور حقوق اور فلاحی ریاست کے کردار سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔پس منظر کے طور پر، مختلف ٹریڈ یونینوں نے ان قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نئے ضوابط ہڑتال کے حق، اجتماعی سودے بازی اور ملازمت کے تحفظ کو متاثر کرتے ہیں۔ احتجاجی موقف رکھنے والی تنظیموں کے مطابق یہ قوانین محنت کش طبقے کو عارضی، غیر محفوظ اور کنٹریکٹ پر مبنی روزگار کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں 26 نومبر کو ’’یوم احتجاج‘‘ منانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جبکہ کسان تنظیم سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔