مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ پر 2 روزہ سیمینار اختتام پذیر

Wait 5 sec.

نئی دہلی: مفتی اعظم ہند حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ پر 2 روزہ سیمینار کی اہم اور آخری مجلس آج ماؤلنکر ہال، کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند اور مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بالترتیب آخری 2 نشستوں کی صدارت کی۔ نظامت کے فرائض ناظمِ عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی اور مفتی محمد عفان منصورپوری نے انجام دیے۔قبل ازیں، گزشتہ دیر رات دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے بلیغ خطاب میں مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی حیات، اخلاق اور ملی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مفتی اعظمؒ کی زندگی دراصل گزشتہ سو سالہ ملکی تاریخ اور اس میں علما کے عظیم کردار کی جھلک ہے۔ ان کی شخصیت میں تواضع، ایثار، خدمتِ خلق اور اساتذہ سے گہرا تعلق نمایاں تھا۔ اکابر کی حیات کے مطالعے سے نہ صرف تاریخ سمجھ میں آتی ہے بلکہ عملی زندگی کے لیے رہنمائی بھی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مفتی کفایت اللہؒ کے اساتذہ، معاصرین اور تلامذہ سب اپنے وقت کے جلیل القدر علماء تھے، جس سے ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔آج کی مجلس میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تقسیمِ وطن کے خلاف ہمارے اکابر کامل اتفاق رکھتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بات بلا دلیل نہیں کہی؛ ان کے بے شمار دلائل رسائل، تقاریر اور تحریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض نوجوانوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر نے غلط راہ اختیار کی تھی۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ حالات واقعی دشوار ہیں، لیکن اس کے دوسرے حصے سے اتفاق نہیں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے اکابر کا فیصلہ بالکل درست تھا، البتہ ان کے فیصلے پر پوری طرح عمل نہ ہو سکا۔ اگر ان کی تجویز کو قبول کیا جاتا اور مسلمان، علما اور ذمہ دار سب یکجا ہو کر ایک موقف اختیار کر لیتے تو صورتِ حال یقیناً مختلف ہوتی۔مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مفتی صاحب "العالِم خبیر بزَمانِہ" کے حقیقی مصداق تھے۔ انہوں نے کہا کہ فتویٰ کے ساتھ تقویٰ ضروری ہے، اور جب ہم مفتی صاحب کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی حیات علم و اتقان کے ساتھ تقویٰ کی صفت سے متصف نظر آتی ہے۔ مولانا خالد صدیقی صدر جمعیۃ علماء نیپال نے کہا کہ مفتی صاحب میدانِ سیاست میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے جتنے فقہ و فتویٰ کے میدان میں۔ موجودہ علما کی قیادت کو ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔صدر مجلسِ قائمہ جمعیۃ علماء ہند مولانا رحمت اللہ میر کشمیری نے کہا کہ مفتی کفایت اللہؒ کی شخصیت عالمگیر تھی۔ وہ صرف موجودہ ہندوستان کے نہیں بلکہ غیر منقسم ہندوستان کے متفقہ عالم تھے، سبھی مسالک کے علماء نے ان کو اپنا صدر بنایا تھا۔ ان کی کتاب ’تعلیم الاسلام‘ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔صدرِ مجلس مفتی محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہؒ کے ہم عصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ ان کو ’عالم الدین والدنیا‘ کہتے تھے۔ اسی طرح حضرت مدنیؒ ان کی صلاحیتوں سے کافی متاثر تھے۔ ان کے مشورے پر حضرت مدنیؒ اپنی رائے بدل دیتے تھے۔ ضرورت ہے کہ ہم شخصیت سازی پر کام کریں تاکہ آج کے دور میں بھی مفتی صاحبؒ جیسی شخصیت پیدا ہو۔دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاد مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی کفایت اللہؒ علماء کی صف میں ممتاز مقام رکھتے تھے، انھوں نے اپنی محنت سے جمعیۃ کے وقار و اعتبار میں اضافہ کیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ اکابر کے افکار کی روشنی میں موجودہ وقت میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے شیخ الحدیث مفتی شبیر احمد قاسمی نے مفتی محمد اعظمؒ کی کتاب کفایت المفتی پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسی سالہ زندگی میں چھپن سال فتویٰ نویسی میں صرف کیے۔ مفتی سید محمد صالح امینِ عام مظاہر علوم سہارن پور نے اپنے مقالے میں علماء مظاہر سے مفتی اعظمؒ کے تعلق پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔نائب امیر الہند و کنوینر سمینار مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری نے کہا کہ مذہبی طور پر انفرادیت پیدا کرکے سیاسی محنت کو آگے بڑھانے کی کوششیں پہلے بھی جاری رہی ہیں اور آج بھی جاری ہیں، ایسے حالات میں مفتی محمد کفایت اللہؒ کا نظریہ و نقطۂ نظر سب سے بہتر راہِ عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور مورخ انل نوریا نے کہا کہ مہاتما گاندھی سے لے کر جواہر لال نہرو تک سبھی مفتی صاحبؒ کے مداح تھے۔ کانگریس پارٹی کی طرف سے تیار کردہ پشاور سانحہ کی رپورٹ میں مفتی صاحب کا بڑا کردار تھا، اسی طرح راولپنڈی میں منعقد کانگریس ورکنگ کمیٹی کی انھوں نے بہت شاندار رپورٹ تیار کی تھی۔ معروف مورخ ڈاکٹر سوربھ باجپائی نے کہا کہ مفتی صاحب متحدہ قومیت کے علمبردار تھے۔ انھوں نے مہاتما گاندھی اور مدنی کے ساتھ مل کر ہندو مسلم اتحاد کو مستحکم کیا۔کانگریس لیڈر عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ سبھاش چندر بوس نے مفتی صاحب کو آزادیِ ہند کا بہادر رہنما قرار دیا تھا۔ جمعیۃ علماء ہند کا نظریہ اور دائرہ انتہائی وسیع رہا ہے۔ اس کے اکابر نے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی مسائل میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، جمعیۃ علماء ہند نے مظلوموں کی جو خاموش لڑائی رہی ہے وہ انتہائی مبارک بادی کی مستحق ہے۔اپنے صدارتی خطاب میں مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مفتی صاحبؒ انتہائی مخلص اور متواضع شخصیت کے حامل تھے۔ آج ہندو مسلم سبھی ان کی عظمتوں کو بیان کر رہے ہیں، یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ان کے دور میں فلسطین کی حمایت میں بڑی تحریک چلائی گئی اور انھوں نے ظالم حکومت کی اس سلسلے میں کوئی پروا نہیں کی۔ ان کی کتاب تعلیم الاسلام بچوں کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ آخر میں ناظمِ عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے ہنوز پانچ سیمینار کیے ہیں جن میں آٹھ اکابر پر متعدد کتابیں اور مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ دلچسپی رکھنے والے افراد الجمعیۃ بک ڈپو سے رابطہ کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔ان کے علاوہ جن شخصیات نے اپنے مقالے پیش کیے ان میں مولانا مفتی اختر امام عادل سمستی پور، مولانا عرفات اعجاز قاسمی، حافظ عبدالحی مفتاحی، مولانا سید محمد صالح مظاہری، ڈاکٹر قاسم دہلوی حفیدہ حضرت مفتی اعظمؒ، مولانا ضیاء الدین ندوی قاسمی، نمائندہ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی، مولانا ڈاکٹر مسعود احمد اعظمی، مولانا مفتی دکاوت حسین قاسمی، مولانا خورشید انور اعظمی جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور، مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کے نام شامل ہیں۔ وقت کی قلت کی بنیاد پر کئی اہم مقالے پیش نہیں ہو پائے، ان میں خاص طور پر مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری، مولانا سالم جامعی وغیرہ کے مقالے شامل ہیں۔ مجلس کا آغاز قاری محمد فاروق کی تلاوت سے ہوا، قاری محمد اقرار بجنوری استاد دارالعلوم دیوبند نے نعت پیش کی جبکہ دوسری نشست میں نعت مولانا عبدالعلیم نے پیش کی۔ اس موقع پر دہلی و بیرون دہلی سے ایک ہزار سے زائد علماء و دانشور حضرات شریک ہوئے۔ حضرت مفتی اعظم کے پوتے مولانا انیس قاسمی مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ نے گزشتہ رات کی دوسری نشست کی صدارت کی، ان کے علاوہ دہلی سے محمد سالم حفیدہ مفتی اعظمؒ، قاری عبدالغفار مہتمم مدرسہ بیت العلوم جعفرآباد، مولانا محمد قاسم نوری، مولانا قاری اسجد زیبر مہتمم مدرسہ شمس العلوم اور مولانا جمعیۃ علماء یوپی کے ذمہ داران... بالخصوص مولانا سید محمد مدنی نائب صدر جمعیۃ علماء یوپی اور مولانا حسین احمد مدنی سکریٹری جمعیۃ علماء یوپی، مفتی ظفر احمد قاسمی ناظمِ اعلیٰ جمعیۃ علماء وسطی زون بھی شریک تھے۔ مجلس حضرت مولانا حبیب باندوی ہتھوڑا باندہ کی دعا پر ختم ہوئی۔