سیتاپور: سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اور اتر پردیش حکومت کے سابق کابینی وزیر محمد اعظم خان کی تقریباً 23 ماہ بعد سیتاپور جیل سے رہائی ہونے جا رہی ہے۔ عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد پیر کو جیل انتظامیہ کو رہائی کے کاغذات موصول ہوئے جس کے بعد ان کی رہائی کی تیاریاں تیز ہو گئیں۔ ذرائع کے مطابق منگل کی صبح سات بجے کے قریب اعظم خان کو رہا کیا جانا تھا لیکن تکنیکی خامی کے باعث اس میں تاخیر ہو گئی۔ اب جیسے ہی بانڈ کا تصحیح شدہ ورژن جمع ہوگا، رہائی عمل میں آجائے گی۔ اس دوران جیل کے باہر سماج وادی پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کی بڑی تعداد جمع ہو چکی ہے جو اپنے محبوب رہنما کے دیدار کو بے چین ہیں۔اعظم خان کے اہل خانہ بھی سیتاپور پہنچ چکے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے نے پیر کی شام ہی جیل انتظامیہ سے ملاقات کر کے رہائی کی کارروائی تیز کرنے کی اپیل کی تھی۔ اہل خانہ نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ جلد اپنے والد کے ساتھ گھر واپس لوٹیں گے۔رامپور میں اعظم خان کے پڑوسی اور پرانے شناسا بھی ان کی رہائی کو لے کر بے حد خوش ہیں۔ آمان نامی ایک مقامی باشندے نے کہا، ’’ہمیں بہت اچھا لگ رہا ہے کہ ہمارے لیڈر کو رہائی مل رہی ہے۔ ہم نے ان کے استقبال کی بھرپور تیاری کر رکھی ہے۔‘‘ ایک اور پڑوسی شرافت نے کہا، ’’پورا محلہ برسوں سے ان کا انتظار کر رہا تھا۔ ان کی واپسی سے علاقے میں پھر سے رونق لوٹ آئے گی۔‘‘اعظم خان گزشتہ دو برسوں سے زیادہ عرصے سے مختلف مقدمات میں جیل میں قید تھے۔ ان پر زمین قبضے سے لے کر فوجداری دفعات تک کئی الزامات عائد کیے گئے تھے، اگرچہ بیشتر معاملات میں انہیں پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی۔ تاہم پیچیدہ قانونی کارروائی اور تکنیکی امور کی وجہ سے وہ رہا نہیں ہو پا رہے تھے۔ان کی رہائی کی خبر ملتے ہی سماج وادی پارٹی کے کارکنوں میں زبردست جوش و خروش دیکھا جارہا ہے۔ پارٹی دفاتر اور مقامی سطح پر جشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ جیل کے باہر ڈھول نگاڑے اور پھول مالاؤں کے ساتھ کارکن صبح سے ہی منتظر ہیں۔مقامی انتظامیہ نے کسی بھی ممکنہ ہنگامہ آرائی یا بدنظمی سے بچنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں۔ جیل کے اطراف اضافی پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے حساس مقامات پر الرٹ بڑھا دیا گیا ہے۔اعظم خان کی رہائی نہ صرف ان کے خاندان اور حامیوں کے لیے جذباتی لمحہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ ان کی واپسی سے اتر پردیش کی سیاست میں نئی ہلچل مچ سکتی ہے۔