انسانیت کا تقاضا ہے کہ ریاست فلسطین کے عوام کو اپنے فیصلوں میں آزادی اور مکمل خود مختاری حاصل ہونی چاہیے اور اسے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے اور آزادانہ طور پر تحفظ و سلامتی سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ماہرین نے گزشتہ سال بھی دنیا کے تمام ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی ممکن بنانے کے لیے اپنے تمام سیاسی و سفارتی ذرائع بروئے کار لائیں۔آخر کار اقوام متحدہ کا یہ مطالبہ کافی حد تک پورا ہوتا نظر آرہا ہے، اور یو این او کے ٹوٹل 193ممالک میں سے 75 فیصد یعنی 145 ممالک اب تک فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں۔https://urdu.arynews.tv/wp-content/uploads/2025/09/pelistine-VDO.mp4اس کے علاوہ گزشتہ سال غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک 13 ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں جن میں اسپین، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال، آئرلینڈ، ناروے، سلووینیا، بہاماس، جمیکا، بارباڈوس، آرمینیا، اور ٹرینیڈا شامل ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے امریکا واحد رکن ہے کہ جس نے اب تک فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ دیگر دو مستقل ارکان چین اور روس نے نومبر 1988 سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رکھا ہے۔دوسری جانب کینیڈا جی سیون ممالک کا وہ پہلا ملک ہے کہ جس نے فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے۔اسی طرح جی 20 کے ممالک میں سے 13 اور نیٹو اتحاد کے 32 میں سے 15 ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر رکھا ہے۔جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر پر فلسطین کا جھنڈا لہرایا جا رہا ہے (فائل فوٹو)اس حوالے سے عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنے زیادہ ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے باوجود امریکا آج بھی فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔درجنوں ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے پر اسرائیل پر عالمی سفارتی دباؤ بڑھا ہےجس کی وجہ سے دو ریاستی حل کی راہ نکالنے کے امکان میں اضافہ ہوا ہے۔دو ریاستی حل کیا ہے ؟واضح رہے کہ دو ریاستی حل کے تحت ریاست فلسطین غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل ہوگی اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہوگا۔