برطانوی ایوان بالا میں غزہ کی صورتحال پر گرما گرم بحث ہوئی ہے۔برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں سوالات پوچھے گئے کہ یو این انکوائری کے مطابق اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے جس پر کنزرویٹو رکن بیرونس آرمِنکا ہیلیک نے برطانوی حکومت کے مؤقف پر وضاحت طلب کر لی۔بیرونس آرمِنکاہیلیک نے کہا کہ غزہ کی صورتحال پر برطانوی حکومت کے مؤقف میں تضاد ہے۔ہیلیک نے یاد دلایا سابق وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا تھا اسرائیل نسل کشی نہیں کر رہا، ڈیوڈ لیمی کہہ سکتے ہیں اسرائیل نسل کشی نہیں کر رہا تو یہ بھی سیاسی تعین ہے، سیاستدانوں کو تعین نہیں کرنا چاہیے مگر وزیر خارجہ کا بیان تضاد پیدا کرتا ہے۔انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ منسٹرجینی چیپمین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حکومت نسل کشی کاتعین خود نہیں کرسکتی۔دوسری جانب اقوام متحدہ نے اسرائیلی بمباری میں عام شہریوں کو نظرانداز کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے عام شہری اور جنگجو کے درمیان فرق ختم کر دیا، غزہ پر اسرائیلی حملےعالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں اسرائیل شہریوں کو نشانہ نہ بنائے، چاہے وہ غزہ میں رہیں یا شہر چھوڑ دیں۔برطانوی میڈیا کے مطابق وزیراعظم کیئر اسٹارمر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برطانیہ کے سرکاری دورے کے اختتام کے بعد فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسٹارمر فرانس کی قیادت میں کئی ممالک سے پہلے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ فیصلہ غزہ میں جاری جنگ کے حوالے سے تشویش کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹارمر کو ان کی لیبر پارٹی کے اندر سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے، لیکن وہ یہ فیصلہ اس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک ٹرمپ برطانیہ سے روانہ نہیں ہو جاتے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ رواں ہفتے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا امکان ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ برطانیہ کے اختتام کے بعد ہی اعلان متوقع ہے۔