چین نے دنیا بھر کے ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے دروازے کھول دیے۔بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے ٹیکنالوجی ماہرین کےلیے ’کے ویزا‘ متعارف کرانے کا اعلان کر دیا جو یکم اکتوبر سے نافذالعمل ہو گا۔ اہل امیدواروں کو بار بار چین آمد اور قیام میں سہولت دی جائے گی۔ درخواست کے مرحلے میں چینی کمپنی یا تاجر کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے ایچ ون بی درخواستوں پر ایک لاکھ ڈالر فیس عائد کی ہے جس کے بعد چین کا اعلان کردہ ’کےویزا‘ خطے کے نوجوانوں کےلیے پُرکشش متبادل بن سکتا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے ایچ ون بی ویزا پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر فیس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے ٹیکنالوجی سیکٹر کو بڑا دھچکا لگنے کا خدشہ ہے، جنوری سے عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی امیگریشن کریک ڈاؤن پالیسیوں میں بڑا قدم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی پر کئی امریکی اور بھارتی کمپنیوں کے شیئرز گر گئے ہیں۔امریکی وزیر تجارت نے کہا کہ امریکی گریجویٹس کو تربیت دیں، غیرملکی ملازمین کو نہ لائیں۔ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے کہا کہ ایچ ون بی ویزا ہنر مند افراد کو لاتا ہے جس کی امریکا کو ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق نئے اخراجات چھوٹی ٹیک کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس پر سب سے زیادہ اثر ڈالیں گے، ایمیزون، مائیکرو سافٹ اور میٹا کے ہزاروں ویزے پہلے ہی منظور ہوچکے ہیں۔بھارت سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے جنہیں 71 فیصد ویزے ملے ہیں، چین 11.7 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔